- فتوی نمبر: 13-32
- تاریخ: 14 ستمبر 2018
استفتاء
دوشخص قریبی رشتہ دار ہیں ایک کینیڈا میں مقیم ہے دوسرا سعودی عربیہ میں ۔کینیڈا والے نے سعودیہ والے سے تیس ہزار کینیڈین ڈالر قرضہ مانگا سعودیہ والے نے تقریبا ایک لاکھ پندرہ ہزار ریال اس کو دے دیا دو سال بعد اب قرضہ واپس کرنے کا وقت آیا تو کینیڈین ڈالر کی قیمت گرگئی ہے اگر وہ اپنے حساب سے تیس ہزار ڈالر دے تو سعودیہ والے کو تیس ہزار ریال نقصان ہوتا ہے۔اس لیے کہ کینیڈین ڈالر کی قیمت تو گری ہے لیکن سعودی ریال کی قیمت برقرار ہے۔ اس طرح قرضہ دینے والے کو پاکستانی حساب سے تقریبا دس لاکھ روپے سے بھی زیادہ کا نقصان ہو گا ۔فلکم رؤوس اموالکم لا تظلمون ولاتظلمون کے تحت کیا یہ اپنی رقم سعودی لحاظ سے پورا کرنے کے لیے ڈالر زیادہ جتنے اب بنیں ، لے سکتا ہے یا نہیں ۔قرضہ دیتے وقت یہ کوئی خیال نہ تھا کہ ڈالر کی قیمت اس طرح گرے گی اس لیے کوئی شرط نہیں لگائی کہ رقم ڈالر کی شکل میں واپس ہو گی یا ریال کی شکل میں ۔اس نے یہاں بینک میں ریال دیئے وہاں اس کو ڈالر مل گئے ۔سائل:محمد عبداللہ صدر لاہور
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ مقروض نے کینیڈین ڈالر کی صورت میں قرضہ طلب کیا اور بینک نے قرض دہندہ کی نیابت میں اس کے ریال کو ڈالر میں تبدیل کرکے مقروض تک پہنچایا ۔اس لیے نتیجتاقرض کے لین دین کامعاملہ ڈالر میں ہوا۔قرض کے بارے میں اصول یہ ہے وہ جیسے لیا جاتا ہے اسی کی مثل واپس کرنا ہوتا ہے تاہم اگر فریقین باہمی رضامندی سے کسی دوسری صورت میں معاملہ نمٹانا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے چنانچہ مذکورہ صورت میں قرض کی واپسی اگر ڈالر میں کرنا چاہیں تب تو تیس ہزار ڈالر ہی دینا ہو گا کمی بیشی نہیں ہو سکتی ۔اور اگر دونوں فریق سعودی ریال میں واپسی پر متفق ہوں تو گنجائش ہے لیکن قرض دہندہ مقروض کی مرضی نہ ہونے کی صورت میں اسے ریال دینے پر مجبورنہیں کرسکتا۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved