• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قرض کو ادھار قیمت پر خریدنے کاحکم

استفتاء

1)میں ایک زمیندار ہوں اور چنوں اور دوسری ا جناس کا چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرتا ہوں۔ میرے پاس چنے وغیرہ کی فصل ہوتی ہے۔ جس میں سے کچھ خرید ی  ہوئی ہوتی ہے اور کچھ اپنی زمینوں سے ہوتی ہے۔ میرے دوست احباب اور رشتہ دار بوقت ضرورت مجھ سے چنے وغیرہ اس شرط پر (بطور قرض )اٹھا کر لے جاتے ہیں کہ جب آپ کو ضرورت ہوگی تو ہم واپس کر دیں گے۔بعض اوقات وہ مجھے بوقت ضرورت دینے پر ضعف کا اظہار کرتے ہیں۔ایسی صورت میں میں ان کو تنگ کرنے کی بجائے ان کی اجازت سے انہیں وہی  چنے موجودہ ریٹ پر فروخت کردیتا ہوں  اور انہیں بتادیتا ہوں کہ  اب اتنے پیسے آپ نے مجھے دینے ہیں یعنی اس موقع پر ان سے قیمت وصول نہیں کرتا۔

2)اسی طرح بعد میں  جب مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس سے اجناس خرید لوں  تو ان کو بتاتا ہوں کہ میں نے  جنس لینی ہے تو آپ مجھے پیسے دے دیں تاکہ میں جنس لے سکوں۔اور  وہ دوبارہ پیسے ادا کرنے سے   بھی مجبوری کا اظہار کریں تو میں ان کو کہتا ہوں کہ جی جتنے پیسے میرے  آپ کی طرف ہیں  ان کو میں موجودہ منڈی کے ریٹ پر چنوں میں تبدیل کر رہا ہوں۔(یعنی اب  دوبارہ میں ان پیسوں کے عوض آپ سے چنے خرید رہا ہوں) چنانچہ  ان کی رضامندی  سے  ان کے کھاتے میں میں اتنے چنے ڈال دیتا ہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اس طرح کا معاملہ کرنا شرعی طور پر جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)مذکورہ معاملہ شرعاً جائز نہیں ہے۔

توجیہ:مذکورہ معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کو چنے  بطور قرض دیتے ہیں اور بعد میں وہ آپ سے چنے خرید لیتے ہیں لیکن خریدنے کے وقت چونکہ اسی مجلس میں پیسوں کی ادائیگی نہیں ہوتی اس لیے بیع الدین بالدین (دین کی دین سے بیع)لازم آتی ہے جوکہ ناجائز ہے البتہ اگر آپ ان سے  معاملہ کرنے کی مجلس میں پیسے نقد لے لیا کریں تو یہ صورت جائز ہوگی۔

2)چونکہ پہلی صورت ہی جائز نہیں اور یہ دوسری صورت اسی کے بعد ہوتی ہے لہذا یہ بھی جائز نہیں ہے۔

تنویر الابصار مع الدر المختار (7/411) میں ہے:فجاز شراء المستقرض القرض ولو قائما من المقرض بدراهم مقبوضة فلو تفرقا قبل قبضها بطل لأنه افتراق عن دين بزازيةاس  کےتحت شامی میں ہے:قوله ( بدراهم مقبوضة الخ ) في البزازية من آخر الصرف إذا كان له على آخر طعام أو فلوس فاشتراه من عليه بدراهم وتفرقا قبل قبض الدراهم بطل وهذا مما يحفظ فإن مستقرض الحنطة أو الشعير بتلفها ثم يطالبه المالك بها ويعجز عن الأداء فيبيعها مقرضها منه بأحد النقدين إلى أجل وأنه فاسد لأنه افتراق عن دين بدين ا هـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved