- فتوی نمبر: 33-65
- تاریخ: 14 اپریل 2025
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز پڑھنے کا طریقہ
استفتاء
میرا سوال یہ ہے کہ نماز میں سلام سے پہلے کی معروف دعا رب اجعلنی مقیم الصلاة الخ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پڑھنا ثابت ہے؟
سوشل میڈیا پر ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ دعا اگرچہ آپﷺ یا صحابہ کرامؓ سے پڑھنا ثابت نہیں لیکن فقہائے کرام نے اس دُعا کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کی بناء پر اختیار کیا ہے چنانچہ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ "ثم ليتخير احدكم من الدعاء اعجبه اليه فيدعو به"(ابوداؤد،حدیث نمبر:968)
ترجمہ:” تشہد کے بعد آدمی اس دعا کو اختیار کرے جو اس کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو”
اس حدیث کے پیش نظر علماء نے مذکورہ دعا کے پڑھنے کو مستحب لکھا ہے کیونکہ اس میں اپنے لیے، اپنے والدین کے لیے، اپنی اولاد کے لیے اور تمام مومنین، مومنات کے لیے دعا ہے۔
شامی(1/521)میں ہے:
(ودعا) بالعربية، وحرم بغيرها نهر لنفسه وأبويه وأستاذه المؤمنين ……….. (بالأدعية المذكورة في القرآن والسنة. لا بما يشبه كلام الناس)
(قوله لنفسه وأبويه وأستاذه المؤمنين) احترز به عما إذا كانوا كفارا فإنه لا يجوز الدعاء لهم بالمغفرة كما يأتي، بخلاف ما لو دعا لهم بالهداية والتوفيق لو كانوا أحياء، وكان ينبغي أن يزيد ولجميع المؤمنين والمؤمنات كما فعل في المنية لأن السنة التعميم، لقوله تعالى {واستغفر لذنبك وللمؤمنين والمؤمنات} [محمد: 19] وللحديث «من صلى صلاة لم يدع فيها للمؤمنين والمؤمنات فهي خداج.
ہندیہ(1/76)میں ہے:
ويستحب ان يقول المصلي بعد ذكرالصلاةفي آخرالصلاة:رب اجعلني مقيم الصلوةومن ذريتي ربنا وتقبل دعاء ربنا اغفرلي ولوالدي وللمؤمنين يوم يقوم الحساب.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved