• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رعشہ کے مریض سے متعلق مختلف مسائل

استفتاء

ایک شخص کی عمر تقریبا 69سال ہے اسے عرصہ سے رعشہ  کی تکلیف ہے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تکلیف بڑھتی جاتی ہے اس شخص کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اس کے لئے زیادہ چلنا پھرنا بھی دشوار ہے ذہن میں جو بات آتی ہے اس کا داعیہ  شدید ہوتا ہے  جس کے خلاف چلنا بہت ناگوار ہوتا ہے  اور طبیعت  پر بھاری ہوتا ہے لباس  تبدیل کرنا بہت مشکل لگتاہے  کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے پیشاب جلدی جلدی اور بہت تیز آتا ہے لیکن چند قطرے آتے ہیں کبھی زیادہ بھی آ جاتا ہے اکثر رکعات کی تعداد بھول جاتا ہے  اس کی گزشتہ سالوں کی نماز یں بھی باقی ہیں۔

ایسے شخص کے بارے میں چند سوالات ہیں  جن کا حل مطلوب ہے؟

1۔اس شخص کو اس کے بچے اس لیے دکان لے جاتے ہیں تاکہ گھر میں مسلسل رہنے کی وجہ سے بیماری زیادہ نہ ہو لیکن بیت الخلاء جاتے جاتے اکثر پیشاب خطا ہو جاتا ہے اس شخص کے لئے گھر میں بھی لباس تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے وہاں پر لباس ساتھ لے جانا اور تبدیل کرنا زیادہ مشکل ہے نیز رعشہ زیادہ ہونے کی وجہ سے اس شخص کے لئے لباس میں قطرے گرنے کی جگہ ڈھونڈ کر دھونا بھی مشکل ہے تو کیا وہ شخص ایسی حالت میں نماز ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟اسے دوہرانی تو نہیں پڑے گی؟ یا وہ گھر جا کر رات کو ساری نماز یں ادا کرے؟

2۔رکعات کی تعداد بھولنے  پر پہلے وہ کم تعداد پر عمل کرتا تھا لیکن اب رعشہ  زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک یا دو میں شک ہونے کی وجہ سے دوسری رکعت کو دوبارہ پڑھنا بہت بوجھ ہوتا ہے تو کیا وہ شخص نماز میں رکعات کی تعداد میں شک کی صورت میں زیادہ پر عمل کر سکتا ہے؟

3۔وہ شخص گزشتہ نمازیں قضا کر رہا تھا لیکن اب تکلیف زیادہ ہونے کی وجہ سے موجودہ نماز یں پڑھنا دشوار ہے تو گزشتہ نماز یں اسے زیادہ دشوار لگتی ہیں   تو کیا وہ شخص گزشتہ نمازوں کا فدیہ دے سکتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ شخص کے بچے اگر بآسانی ان کی پاکی ناپاکی  کا خیال رکھ سکتے ہیں تو ان کیلئے  لباس تبدیل کر کے اور جسم کو پاک کر کے نماز پڑھنا ضروری ہے بشرطیکہ ناپاکی کی مقدار  ناقابل معاف مقدار کے برابر  ہو  اور اگر انہوں نے ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھ لی تو اسے دوہرانا پڑے گا نیز  اس صورت  میں گھر جا کر رات کو ساری نمازیں ادا کرنے کی اجازت بھی نہ ہوگی۔ نیز مزید آسانی کیلئے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ ان صاحب کو لنگی کے نیچے انڈرویر استعمال  کرایا جائے  تاکہ جسم اور کپڑے ناپاک نہ ہوں اور انڈر ویر کو وضو اور نماز سے پہلے اتار دیا جائے جس کا لنگی استعمال کرنے کی وجہ سے اتارنا آسان ہوگا۔لیکن اگر بچوں کیلئے ان کی پاکی ناپاکی کا خیال رکھنا آسان نہ ہو تو چونکہ قادر بقدرۃ الغیر امام صاحب ؒ کے نزدیک قادر نہیں لہذا یہ صاحب جس پاکی کو حاصل کرنے پر یا ناپاکی کو دور کرنے پر خود قادر نہیں وہ ان کو معاف ہے لہذا ایسی پاکی کو حاصل  کئے بغیر یا ناپاکی کو دور کئے بغیر ان کا نماز پڑھنا درست ہوگا۔

فتاویٰ ہندیہ (293/1) میں ہے:

وكذلك إذا كان على ‌فراش ‌نجس إن كان لا يجد فراشا طاهرا أو يجده لكن لا يجد أحدا يحوله إلى فراش طاهر يصلي على الفراش النجس وإن كان يجد أحدا يحوله إلى فراش طاهر ينبغي أن يأمره حتى يحوله فإن لم يأمره وصلى على الفراش النجس لا يجوز، هكذا في المحيط.

مريض تحته ثياب نجسة إن كان بحال لا يبسط شيء إلا ويتنجس من ساعته يصلي على حاله وكذا إذا لم يتنجس الثاني لكن يلحقه زيادة مشقة بالتحويل، كذا في فتاوى قاضي خان

المحیط البرہانی (35,36/3) میں ہے:

وكذلك على هذا إذا كان على فراش نجس إن كان لا يجد فراشاً طاهراً، أو يجد فراشاً طاهراً ولكن لا يجد أحداً يحوله إلى فراش طاهر، فصلى على هذا الفراش الطاهر جازت صلاته، فإن كان يجد أحداً يحوله إلى فراش طاهر ينبغي أن يأمره حتى يحوله، فإن لم يأمره وصلى على فراش نجس، قال أبو حنيفة رحمه الله: يجوز، وقالا: لا يجوز، وهذا بناءً على أصل معروف.

وهو أن القادر ‌بقدرة ‌الغير هل يصير قادراً؟ قال أبو حنيفة رحمه الله: لا يصير قادراً، وقالا: يصير قادراً حتى أن الأعمى لا يجب (عليه الحج والجمعة، وإن كان له ألف قائد عند أبي حنيفة رحمه الله، وعندهما: يجب الحج والجمعة. قال شمس الأئمة رحمه الله: قول محمد رحمه الله في «الكتاب» : إذا صلى متعمداً إلى غير القبلة لا يجزئه رواية أن فاعله لا يكفر بخلاف ما قاله بعض المشايخ رحمهم الله.

مسائل بہشتی  زیور (262/1)  میں ہے:

مسئلہ:مریض نجس بستر پر ہو تو اگر پاک بستر نہیں ملتا یا ملتا ہے لیکن کوئی ایسا شخص نہیں جو اس کا بستر بدل دے اور مریض خود اٹھنے کے قابل نہ ہو تونجس بستر پر نماز پڑھ لے اور اس کا اعادہ نہ کرے اور اگر ایسا  شخص مل جائے جو اس کا بستر بدل دے تو چاہیے کہ اس کو کہے اور اگر نہ کہا اور نجس بستر پر نماز پڑھ لی تو نماز جائز نہیں ہوگی۔

(2) مذکورہ شخص رکعات کی تعداد میں شک کی صورت میں زیادہ پر عمل نہیں کرسکتا البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص ان کو یاد دہانی کراتا رہے مثلاً یوں کہتا رہے کہ اب ایک رکعت ہوگئی ہے اب دو ہو گئی ہیں ۔

البحر الرائق (204,205/2) میں ہے:

ولو كان يشتبه على المريض أعداد الركعات أو السجدات لنعاس يلحقه لا يلزمه الأداء ولو أداها ‌بتلقين ‌غيره ينبغي أن يجزئه اهـ

تنویر الابصار مع درالمختار(688/2) میں ہے:

(ولو اشتبه على مريض أعداد الركعات والسجدات لنعاس لحقه لا يلزمه الاداء) ولو أداها ‌بتلقين ‌غيره ينبغي أن يجزيه، كذا في القنية.

رد المحتار (688/2) میں ہے:

(قوله ولو اشتبه على مريض إلخ) أي بأن وصل إلى حال لا يمكنه ضبط ذلك، وليس المراد مجرد الشك والاشتباه لأن ذلك يحصل للصحيح (قوله ينبغي أن يجزيه) قد يقال إنه تعليم وتعلم وهو مفسد كما إذا قرأ من المصحف أو علمه إنسان القراءة وهو في الصلاة ط.

قلت: وقد يقال إنه ليس بتعليم وتعلم بل هو تذكير أو إعلام فهو كإعلام المبلغ بانتقالات الإمام.

عمدۃ الفقہ (409/2) میں ہے:

اگر کوئی مریض ایسی حالت کو پہنچ گیا کہ غنودگی وغیرہ کی وجہ سے اس کو رکعتوں کا شمار اور رکوع وغیرہ یاد نہیں رہتا تو اس پر اس وقت کی نمازوں کا ادا کرنا ضروری نہیں بلکہ صحت کے بعد ان کی قضا پڑھ لے لیکن اگر کوئی شخص اس کو بتلاتا جائے اور وہ پڑھ لے تو جائز ہے اور یہ بتلانا تعلیم نہیں بلکہ یاددہانی اور خبردار کرنا ہے اس لئے یہ نماز کو فاسد نہیں کرتا یہی حکم اس شخص کا ہے جس سے زیادہ بڑھاپے کے سبب عقل میں  فتور آگیا ہو اور رکعتوں کی تعداد اور رکوع  وسجود وغیرہ یاد نہ رکھ سکتا ہو تو دوسرے شخص کے بتلانے سے اس کی نماز درست ہو جائے گی۔

 (3)مذکورہ شخص کیلئے گزشتہ نمازوں کا فدیہ دینا درست نہیں تا ہم وہ نمبر 1 اور نمبر 2 میں مذکور ہ تفصیل کے مطابق گزشتہ نمازوں کی قضا کرتا رہے اور جو قضا نہ ہو سکیں ان کا فدیہ دینے کی وصیت کر دے۔

تنویر الابصار مع در المختار (643,644/2) میں ہے:

(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة ‌يعطى ‌لكل ‌صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطى (من ثلث ماله).

رد المحتار (644/2) میں ہے:

(قوله وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لا يلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة.

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (306/4) میں ہے:

الجواب: شیخ فانی کو روزہ کافدیہ دینا تو درست ہے لیکن نماز کا فدیہ خود اس کو دینا درست نہیں ہے اور نماز یں اس فدیہ سے ساقط نہ ہوں گی کیونکہ نماز میں یہ وسعت ہے کہ اگر کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکے تو  بیٹھ کر پڑھے اور اگر  بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھے اور اگر رکوع وسجود کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا تو اشارہ سے پڑھے البتہ بعد اس کے مرنے کے جو نماز یں اس کے ذمہ رہ جاویں  یا روزے رہ جاویں  اور وہ وصیت فدیہ دینے کی کرے اور مال بھی چھوڑ دے تو اس کے وارثوں کے ذمہ فدیہ کا ادا کرنا ضروری ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved