• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رشوت دے کر ملکیت حاصل کیے ہوئے مکان کی تقسیم

استفتاء

میرے متوفی شوہر کا نام *** ہے، *** ۔۔۔ کا کاروبار کرتا تھا، اس نے تقریباً 32 سال پہلے ایک دکان خریدی، یہ دکان اس نے دن رات محنت کر کے حق حلال کی کمائی سے خریدی، اس کے لیے ایک ایک روپیہ جوڑا اور میں اس کی عینی شاید ہوں۔ دکان مین روڈ پر تھی، پھر اس نے دکان کے اوپر والا مکان بھی خرید لیا، یہ مکان اس نے کسی جج سے خریدا تھا، دکان کے پیچھے قطار میں چھوٹے چھوٹے کوارٹر تھے، ان کو اٹرز میں غریب لوگ رہتے تھے۔ یہ غریب لو در اصل جھوٹے مہاجر بن کر اس زمین پر قابض تھے، برصغیر کی تقسیم کے وقت یہ کوارٹرز اور اس کے گردو نواح کا علاقہ ہندوؤں کی ملکیت تھا۔

ہندو جب تقسیم کے وقت یہ علاقہ چھوڑ کر بھاگے تو مقامی باشندوں نے (لاہوریوں) نے اس علاقہ پر قبضہ کر لیا، جس کا جتنا داؤلگا اس نے اتنی زمین پر قبضہ کیا، حکومت پاکستان کو یہ بتایا کہ ہم ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے ہیں اور مہاجر ہیں، حکومت پاکستان کا طریقہ کار یہی تھا کہ کسی بھی زمین کو اپنے نام کروانے کی خاطر حکومت کو اس کی فیس دینی پڑتی تھی۔ ان چھوٹے قابضوں میں سے کسی کے پاس بھی قانونی ثبوت اس زمین کا نہ تھا، پھر میرے سابقہ شوہر کو ایک شیطانی خیال سوجھا، اس نے اپنی دکان کی توسیع کا منصوبہ بنایا، اس نے ان غریب چھوٹے مہاجروں کو تنگ کرنا شروع کیا، ڈرایا دھمکایا، پریشان کیا کہ وہ یہ زمین اس کو بیچ دیں، آخر آہستہ آہستہ تنگ آ کر سب لوگوں نے میرے سابقہ شوہر کو یہ زمین بیچ دی، چند  ہزار کے عوض، لیکن میرے سابقہ شوہر کے پاس اس زمین کے قانونی کاغذات نہ تھے، پھر میرے شوہر نے پٹواریوں کو لاکھوں روپے رشوت دے کر ان کواٹرز کے کاغذات اور نقشہ جات نکلوائے اور ان میں ردّ و بدل کروا کر یہ ظاہر کروایا کہ یہ سب زمین اس نے جج سے خریدی ہے۔

وقت گذرتا رہا، *** نے خوب محنت کی، دن رات ایک کر کے اس جگہ پر چار منزلہ عمارت تعمیر کی، اس میں ایک ہوٹل بنایا اور کافی عرصہ تک اس کا ترکہ بھی وصول کیا، اپنی وفات سے ایک سال پہلے اس نے مین روڈ پر اپنی چار منزلہ عمارت کے ساتھ ایک اور دکان خریدی جو تقریباً کروڑ روپے کی تھی۔ آج اس عمارت کی قیمت کڑوں روپے کی ہے۔

1۔ برائے مہربانی فتویٰ کے ذریعے مجھے اس اراضی کی شرعی حیثیت بیان فرما دیں؟

2۔ کیا یہ اراضی *** کے وارثوں کے لیے جائز اور حلال ہیں یا نہیں؟

3۔ کیا یہ چار منزلہ عمارت اور دکان وارثوں میں تقسیم ہو سکتی ہے؟

4۔ اگر کسی وارث کے لیے کوئی شرعی حکم ہے وہ بھی بیان کر دیں؟

والدہ کی حیثیت سے اس وراثت کی تقسیم پر میں اپنے بیٹے پر دباؤ ڈال سکتی ہوں جو کہ ہر چیز پر قابض ہے اور حق دینے سے انکار کرتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مین روڈ پر دکان اور اس کے اوپر مکان *** کا ہے کیونکہ وہ اس نے اپنی جائز دولت سے خریدا۔

2۔ دکان کے پیچھے جگہ پر مہاجرین قابض تھے جو سائلہ کے مطابق جھوٹا دعویٰ کرتے تھے اور جھوٹے قابض تھے، *** نے کچھ رقم دے کر وہ کواٹر اپنے نام کروائے، اس میں رشوت اور قانونی ادائیگیاں کر کے *** ان کواٹروں کا مالک بنا، ان میں بے قاعدگیاں کرنے کی وجہ سے *** گناہگار ہوا لیکن ملکیت حاصل ہو گئی۔

3۔ مین روڈ پر چار منزلہ عمارت کے ساتھ متصل ایک اور دکان خریدی جو *** کے لیے جائز تھی۔

غرض جہاں جو گناہ ہے وہ تو ہے لیکن ان تمام جائیدادوں میں *** کی ملکیت ثابت ہے۔ اور *** کے وارث اس کی تمام جائیداد کے وارث ہوئے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved