• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رضاعی خالہ اور بھانجی کو نکاح میں جمع کرنے کا حکم

استفتاء

*** اور*** نے ایک ہی ماں کا دودھ پیا ہےاس طرح وہ رضاعی بہنیں ہو گئیں۔پھر**کی بیٹی  شبانہ کی شادی *** سے ہوئی ،جس سے شبانہ کا ایک بیٹا بھی ہے۔*** کو شوہر نے طلاق دے دی،***نے طلاق کے بعد اپنی رضاعی بھانجی شبانہ کے شوہر سے نکاح کر لیا ہے اور میاں بیوی کی طرح رہ رہے ہیں،اب بھی یہ رضاعی خالہ بھانجی ایک ہی شخص کے نکاح میں ہیں۔کیا** کا نکاح ماجد سے جائز ہے؟اگر جائز نہیں تو** کو ** سے طلاق لینی چاہیے یا بغیر طلاق کے ہی الگ ہو جائےاور الگ ہو کر سلمی کو دوسرا نکاح کرنے کے لئے عدت گذارنی ہو گی یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں**** کا  نکاح** سے  شرعا درست نہیں ہوا بلکہ وہ نکاح فاسد ہے کیونکہ** کی پہلے سے موجود بیوی کی رضاعی خالہ ہے اور پہلے سے موجود  بیوی کی خالہ سے نکاح شرعاً درست نہیں۔ لہذا  میاں بیوی کے لئے ضروری ہے کہ اس  نکاح کو فسخ کر کے فورا  علیحدگی اختیار کریں۔نکاح فسخ کرنے کے لئے شوہر بیوی کو زبان سے کہہ دے کہ میں نے تمہیں چھوڑ دیا،یا طلاق دے دے یا میاں بیوی میں سے کوئی ایک کہہ دے کہ  ’’میں نے اپنا نکاح جو فلاں شخص سے ہوا تھا،فسخ کیا‘‘ اس کے بع** کو کہیں اور  دوسرا نکاح کرنے سے پہلے عدت گذارنا ضروری ہے۔

درمختار(133/4)میں ہے:( فيحرم منه ) أي بسببه ( ما يحرم من النسب )عالمگیری(277/1)میں ہے:والاصل ان كل امرأتين لو صورنا احداهما من أى جانب ذكرا لم يجز النكاح بينهما برضاع او نسب لم يجز الجمع بينهما هكذا في المحيط، فلا يجوز الجمع بين امرأة و عمتها نسبا او رضاعا و خالتهادرمختار مع رد المحتار(122/4)میں ہے:(و) حرم (الجمع) بين المحارم (نكاحا) أى عقدا صحيحا (وعدة ولو من طلاق بائن، و) حرم الجمع (وطأ بملك يمين بين امرأتين أيتهما فرضت ذكرا لم تحل للأخرى) ابدا لحديث مسلم:لا تنكح المرأة على عمتهاوفي الشامية:وأراد بالمحارم  ما يشمل النسب والرضاعامداد الاحکام(255/2)میں ہے:"پھوپھی اور بھتیجی دونوں ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں اس لئے پھوپھی کی موجودگی نکاح میں  جو اس کی بھتیجی سے نکاح کیا گیا ہے وہ فاسد ہے درست نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔پس صورت مسئولہ میں اس شخص نے اپنی بیوی کی بھتیجی سے پھوپھی  کو نکاح میں رکھتے ہوئے جو نکاح کیا ہے  یہ بہت بڑا گناہ ہوا  اس سے توبہ علانیہ لازم ہے اور بھتیجی سے علیحدگی لازم ہے۔۔۔۔الخ”امدادالاحکام(267/2)میں ہے:"۔۔۔۔۔۔۔جب نکاح صحیح نہ ہوا  تو لڑکی کو شوہر سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں بلکہ چند آدمیوں کے سامنے اتنا کہہ دینا چاہیے کہ میں اپنے نکاح  کو جو فلاں شخص  سے ہوا تھا فسخ کرتی ہوں اور بہتر یہ ہے کہ شوہر کے سامنے بھی یہ بات کہہ دے گو ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال في الخلاصة۔۔۔۔۔والمتاركة في النكاح الفاسد بعد الدخول لا يكون الا بالقول تركتك او خليت سبيلك الى أن قال وفي الحيط لكل واحد فسخ هذا العقد بغير محضر من صاحبه قبل الدخول وبعد الدخول ليس لكل واحد حق الفسخ الا بحضرة صاحبه كالبيع الفاسد وعند بعض المشائخ لكل واحد حق الفسخ بعد الدخول وقبله۔۔۔۔۔۔۔الخ”درمختار مع ردالمحتار(267/4)میں ہے:"(و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه ودخل بها أو لا) في الأصح خروجا عن المعصية”درمختار مع ردالمحتار(269/4)میں ہے:(و يجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود…………..(وتجب العدة بعد الوطء) لا الخلوة للطلاق لا للموت  (من وقت التفريق) أو متاركة الزوجوفي الشامية تحت قوله:(بعد الوطء لا الخلوة) أى:لا تجب بعد الخلوة المجردة عن وطء، ووجوب العدة بعد الخلوة ولو فاسدة إنما هو في النكاح الصحيحفتاوی عالمگیری(526/1)میں ہے:لو كان النكاح فاسدا ففرق القاضى ان فرق قبل الدخول لا يجب العدة  وكذا الفرق بعد الخلوة وان فرق بعد الدخول كان عليها الامتداد من وقت التفريق وكذا لو كانت الفرقة بغير قضاء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved