• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رجسٹری نام کرنے سے حکماً قبضے کا تحقق

استفتاء

میرے والد نے ترکہ میں ایک دکان چالو حالت میں اور ایک مکان سکونتی چھوڑا ہے، میری والدہ کا انتقال والد سے دس سال قبل ہو گیا تھا، والد کی ایک دکان تھی جو انہوں نے والدہ کے نام کر رکھی تھی، مقصد یہ تھا کہ اگر میں پہلے انتقال کر جاتا ہوں تو والدہ کے پاس کچھ سرمایہ ہو گا، والدہ کی دکان والد کی دکان سے متصل رہی اور والد دونوں دکانوں میں کاروبار کرتے رہے، اور گھریلو ضروریات پوری کرتے رہے، اپنی وفات سے پانچ چھ ماہ پہلے والد سکونتی مکان میرے نام کر گئے تھے، والدہ کا انتقال والد کے انتقال سے دس سال قبل ہوا اور ان کی جائیداد کو تقسیم نہیں کیا گیا، کیونکہ والد حیات تھے اور تمام کاروباری امور ان کے اختیار میں تھے، ہم چار بہنیں اور ایک بھائی حیات ہیں اور ایک بہن والدہ سے بھی پہلے فوت ہو گئی ہیں۔ برائے مہربانی حصوں کی تقسیم کی وضاحت فرمائیں۔ والدہ کا انتقال 2005ء میں ہوا، ورثاء میں خاوند، چار بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ والد کا انتقال 2014ء میں ہوا، ورثاء میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

نوٹ: مکان کے بارے میں والد صاحب اکثر کہتے رہتے تھے کہ یہ مکان میرے بیٹے کا ہے، لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ مکان میں نے اپنے بیٹے کو دے دیا یا ہبہ کر دیا۔

1۔ والد صاحب اس مکان میں وفات تک رہتے رہے۔

3۔ وفات سے پانچ چھ ماہ قبل اس مکان کی رجسٹری بصورت بیع نامہ کے بیٹے نام کر گئے جو کہ ساتھ لف ہے۔ جبکہ حقیقت میں بیع نہیں ہوئی تھی یعنی مکان کے عوض بیٹے نے والد کو رقم ادا نہیں کی۔

5۔ بیع نامہ کی صورت اس لیے اختیار کی گئی تاکہ بعد میں کوئی وارث اسے چیلنچ نہ کر سکے، کیونکہ ہبہ نامہ لکھتے تو اسے ورثاء چیلنج کر سکتے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مکان اور دکان کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مکان تو صرف بیٹے کو ملے گا، باقی دکان چھ حصوں میں تقسیم کر کے 2 حصے بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو ملے گا۔ صورتِ تقسیم یہ ہے:

6                                       

بیٹا           بیٹی      بیٹی      بیٹی      بیٹی

2           1       1       1       1

توجیہ: مذکورہ صورت میں مکان کے بارے میں والد کا یہ کہنا کہ "یہ مکان میرے بیٹے کا ہے” اس سے مکان ہبہ ہو گیا، اور پھر

جب مکان کی رجسٹری بھی بیٹے کے نام کرا دی توا س سے حکماً قبضہ بھی ہو گیا۔

و جعلته لك لأن اللام للتمليك و لهذا لو قال هذه الأمة لك كان هبة. (البحر الرائق: 7/ 484)

البتہ والد کے لیے یہ درست نہیں تھا کہ وہ مکان میں سے بیٹیوں کو ان کے حصے سے محروم کرتا، لہذا بیٹے کو چاہیے کہ وہ مکان میں سے اپنی بہنوں کو کچھ دے دلا کر والد صاحب کی اس کوتاہی کی تلافی کرے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved