- فتوی نمبر: 1-292
- تاریخ: 15 دسمبر 2007
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
ایک شخص نے بینک میں بقدر نصاب سونا جمع کروایا۔ اور اس سونے پر بینک سے اس نے قرضہ لیا۔ پھر اس نے اس قرضے سے کاروبار شروع کیا۔ آیا جو سونا اس نے بینک میں جمع کروایا ہے اس کی حیثیت رہن کی سی ہے؟ اور وہ شخص اس سونے کی زکوٰة ادا کرے گا؟ بینک نے اس شخص کو قرضہ زیورات میں خالص سونے کی مالیت کی بنا پر دیا ہے۔ اور زیورات میں جو کھوٹ ہے اس کو شمار نہیں کیا۔
اگر بینک میں رکھے گئے اس سونے کی حیثیت رہن کی سی ہے تو ضرب مومن اخبار کے ساتھ شائع ہونے والے رسالے کے مطابق مال زکوٰة ( نقد، سونا، چاندی، مال تجارت) جب گروی کے طور پر قرض خواہ یا فروخت کنندہ کے پاس رکھا جائے تو اس کی زکوٰة نہ قرض خواہ اور فروخت کنندہ پر لازم ہے اور نہ مقروض ( مالک) پر۔ اگرچہ یہ گروی جس چیز کےبدلے میں رکھی گئی ہے اس کی قیمت کے برابر ہو یا اس سے زیادہ قیمت کی ہو۔ راہن پر تو اس لیے زکوٰة نہیں کہ اس کا قبضہ نہیں اور مرتہن پر اس لیے نہیں کہ اس کی ملکیت نہیں۔ جبکہ اگر میں نے کسی کو دو لاکھ روپے قرض دیا ہے اور اس کو ایک سال گذر گیا ہے تو زکوٰة مجھے ادا کرنی ہوگی اگرچہ دو لاکھ پر میرا قبضہ نہیں ہے۔ اور ملکیت باقی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کے علاوہ ہدایہ کتاب الرہن میں لکھا ہے” و الخراج على الراهن خاصةً لأن الخراج من مؤنة الملك فلزم المالك لأجل الملك”. تو کیا خراج اور زکوٰة کا حکم جدا جدا ہے؟ کہ خراج تو راہن پر آتا ہے مگر زکوٰة نہیں آتی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
وجوب زکوٰة کے لیے ضروری ہے کہ ملکیت بھی ہو اور قبضہ بھی ہو یعنی مقدور الانتفاع بھی ہو۔
أما الشرائط التي ترجع إلى المال … و منها الملك المطلق و هو أن يكون مملوكاً رقبةً و يداً … فلا تجب الزكاة في المال الضمار و هو كل مال غير مقدور الانتفاع به مع قيام أصل الملك.بدائع
۱۔ رہن میں راہن پر اس لیے کہ قبضہ نہیں ہے اور مرتہن پر اس لیے کہ ملک نہیں۔
فلا زكاة على مكاتب … و لا في مرهون بعد قبضه قال الشامي: أي لا على المرتهن لعدم الرقبة و لا على الراهن لعدم اليد. ( شامی: 3/ 214)
۲۔ قرض میں ملکیت تو ہے ہی قبضہ بھی موجود ہے کیونکہ قرض ایک تبرع ہے، دوسرے اس میں اجل نہیں ہوتا، مقرض جب چاہے اپنی رقم واپس لے سکتا ہے۔
و تجب الزكاة في الدين مع عدم القبض … و مال ابن السبيل مقدوراً لانتفاع به في حقه بيد نانبه و كذا الدين المقر به إذا كان المقر ملياً فهو ممكن الوصول إليه. ( بدائع: 2/ 89)
۳۔ خراج مؤنت ارض ہے اس میں ملکیت کافی ہے۔ لہذا زمین پر جو پیداوار ہوگی اس میں خراج نکالا جائے گا۔
و مؤنات الملك على المالك، و الملك للراهن فكانت المؤنة عليه و الخراج على الراهن لأنه مؤنة الملك. ( بدائع: 5/ 218)
© Copyright 2024, All Rights Reserved