- فتوی نمبر: 28-167
- تاریخ: 29 جنوری 2023
استفتاء
بازار میں’’ریو‘‘(سٹرابیری ونیلا فلیور )کے نام سے ایک بسکٹ دستیاب ہے،کیا یہ بسکٹ حلال ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
پاکستانی کمپنی ’’پیک فرینس (Peek Freans)کے بنائے ہوئے ’’ریو‘‘(سٹرابیری ونیلا فلیور ) کےنام كے بسکٹ کے پیکٹ پرجو اجزائے ترکیبی درج ہیں ان میں سے کسی جز کے حرام ہونے پر کوئی قابل اعتبار دلیل نہیں لہذا جب تک مذکورہ بسکٹ میں کسی حرام جز کے شامل ہونے کی کوئی قابل اعتبار دلیل سامنےنہیں آتی اس وقت تک اس بسکٹ کا کھانا حلال ہے۔
توجیہ: آج کل بازار میں دستیاب مذکورہ’’ریو‘‘(سٹرابیری ونیلا فلیور )بسکٹ کے پیکٹ پر16اجزائے ترکیبی درج ہیں (1.گندم کا آٹا،2.چینی ،3.بناسپتی (پام) 4.کھوپرے کا تیل ،5.انورٹ سیرپ ،6.نمک ،7.ایملسی فائر(سویا لیسیتھین E322)،8.ریزنگ ایجنٹ (امونیم بائی کاربونیٹE503،9.سوڈیم بائی کاربونیٹE500 ) 10.ڈوکنڈیشنر،(11،12،13،14)مصنوعی فلیور(اسٹرابیری ،مکھن ،دودھ ، ونیلا )،15،16.منظور شدہ فوڈ کلرز(E127,E102)
ان سولہ اجزاء میں سے6نباتاتی،4معدنی،2حیوانی اور4مصنوعی ہیں۔ان اجزاء کی تفصیل اور ان كا حکم درج ذیل ہے:
نباتاتی اجزاء:
1۔چینی،2۔بناسپتی(پام)،3.گندم کاآٹا،4۔ کھوپرے کا تیل ،5۔ایملسی فائر(سویا لیسیتھنE322)) 6۔انورٹ سیرپ(ایک سیرپ جوگلو کوز یعنی نباتات سے حاصل ہونے والی مخصوص شکر اور فرکٹوز یعنی پھلوں سے حاصل ہونے والی مخصوص شکر سے مل کر بنتا ہے)
نباتاتی اجزاء کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے نشہ آوریامضر اجزاء کے علاوہ سب پاک اور حلال ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ اجزاء میں سے کوئی بھی جزء نشہ آور یا مضر نہیں ہے لہذایہ سب اجزاء حلال اور پاک ہیں۔
معدنی اجزاء:
1۔نمك۔2۔(Tartrazine E102) آکسفورڈ انگلش اُردو ڈکشنری کے مطابق یہ ایک شوخ چمکیلا زرد رنگ کا مادہ ہے جو کھانوں ،دواؤں اور آرائش کے سامان میں استعمال ہوتا ہے ۔
نوٹ: Wikipediaویب سائٹ کے مطابق ‘‘ کول تار سے بننے والی چیزوں میں tartrazineE102 بھی شامل ہے۔
3 ۔ڈوکنڈیشنریعنی سوڈیم میٹا بائی سلفیٹ E223 ،آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق ‘‘ گندھک کے تیزاب سے حاصل ہوتا ہے۔
4۔ریزنگ ایجنٹ یہ معدنی ہے اسے بیکنگ سوڈا بھی کہا جاتا ہے۔ مختلف معدنیات کو ملا کر بنایا جاتا ہے(ویکیپیڈیا)
معدنی اجزاء کا حکم بھی نباتات والا ہے کہ نشہ آور یا مضر اجزاءکے علاوہ سب حلال اور پاک ہیں ،لہذا نمک ، tartrazine اور’’ ڈو کنڈیشنر ‘‘Dough conditionerبھی حلال اور پاک ہیں۔
حیوانی اجزاء:
1۔مکھن ۔2۔دودھ۔
ان کا حکم یہ ہے کہ جس جانور کا گوشت حلال ہے اس کا دودھ بھی حلال ہے ،اورجس جانور کا گوشت حلال نہیں اس کا دودھ بھی حلال نہیں، مذکورہ دودھ کے بارے میں اگر چہ یہ معلوم نہیں کہ یہ حلال جانور کا ہے یا حرام جانور کا ، لیکن چونکہ بازار میں عام طور پر حلال جانوروں(گائے،بھینس،بکری وغیرہ) کا دودھ ہی دستیاب ہوتا ہے حرام جانوروں کا دودھ عموماً دستیاب نہیں ہوتا نیز چونکہ مذکورہ صورت حال اسلامی ملک کی ہےاس لیےجب تک اس دودھ کے کسی حرام جانور سے حا صل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک اس جزء کو بھی حلال کہا جائے گا ۔اور مکھن بھی چونکہ دودھ سے بنتا ہے ،اس لیے اس کا حکم بھی دودھ والا ہے۔
مصنوعی اجزاء:
1۔ریزنگ ایجنٹ (امونیم بائی کاربونیٹ E503،یہ مختلف گیسز اور کیمیکلز کو باہم ملا کر بنایا جاتا ہے)
2۔مصنوعی فلیور(اسٹرابیری)
3۔مصنوعی فلیور (ونیلا)
4۔مصنوعی گلابی رنگ (Erythrosine E127)
مصنوعی اجزاء بھی در حقیقت مذکورہ بالا تین اجزاء(نباتاتی،معدنی اور حیوانی) میں سےکسی ایک سے یا ایک سے زائد سے ہی تیارہوتے ہیں ان سے ہٹ کرکسی اور چیز سے تیار نہیں ہوتے ، اس لیئے مصنوعی اجزاءکا اصل حکم تو اسی وقت معلوم ہو سکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ ان کو کن اشیاء سے تیار کیا گیا ہے اور پھر اس بسکٹ میں ان میں سے کون سا مصنوعی فلیور استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن جب تک یہ معلوم نہ ہوسکے کہ یہ مصنوعی اجزاء کسی حرام یا ناپاک چیز سے تیار کیے گئے ہیں اس وقت تک انہیں یا جس مصنوع (پروڈکٹ )میں یہ اجزاء شامل ہیں اسے حرام نہیں کہا جاسکتا۔مذکورہ صورت میں چونکہ ان اجزاء کےکسی حرام یا ناپاک اشیاء سے تیار ہونے کا علم یا غالب گمان نہیں اس لیئے ان مصنوعی اجزاء کو بھی حلال کہا جائے گا۔لہذا جب تک ’’ریو ‘‘ بسکٹ میں کسی حرام جزء کے شامل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک اسے حلال کہا جائے گا۔
نوٹـ مصنوعی جزء کے حیوان سے حاصل ہونے کا احتمال شبہۃ الشبہۃ کا درجہ رکھتا ہے ا س لیے اس کا اعتبار نہ ہوگا،کیونکہ اس مصنوعی جزء کا حیوانی ہونا یقینی نہیں ہے بلکہ اس کے حیوانی ہونے کاصرف شبہ ہے پھر حیوانی ہونے کی صورت میں اس کے حیوان غیر مأکول اللحم یا غیر شرعی ذبیحہ کا جزءہونا یقینی نہیں ہے بلکہ اس کا بھی شبہ ہے ،لہذا مصنوعی جزء کو حیوانی ماننے کی صورت میں اس کے حرام ہونے کاشبہۃ الشبہۃ ہے اور شریعت میں حرام کے شبہہ کا اعتبار ہے اور اس سے بچنے کا حکم ہے حرام کے شبہۃ الشبہۃ کا اعتبار نہیں ہے اور ا س سے بچنا لازمی نہیں ہے۔
نوٹ:ہمارے اس فتوے کا تعلق صرف صارف (Consumer)کے ساتھ ہے کیونکہ ایک مفتی اور عام صارف کو کسی مصنوع(Product)کے ان اجزائے ترکیبی تک ہی رسائی ہو سکتی ہے جو پیکٹ پر درج ہوں اور وہ ان اجزاء کو ہی سامنے رکھ کر اپنے لیئے یا دوسرے کیلئےحلال یا حرام کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
جبکہ صانع(Manufacturer)کو اصل حقیقت کا علم ہوتا ہے اس لیئے صانع(Manufacturer) نے اگر اپنی کسی مصنوع(Product)میں کوئی حرام جز شامل کیا ہو اور اسے کسی بھی مصلحت سے اجزائے ترکیبی میں ذکر نہ کیا ہو تو صانع (Manufacturer) کا یہ فعل بہر حال حرام ہوگا اور چونکہ ہمارے پاس ایسے وسائل نہیں کہ ہم اس کی تحقیق کر سکیں کہ کسی مصنوع میں واقعتاً کوئی حرام جز شامل تو نہیں ،اس لیئے ہمارے اس فتوے کی صانع (Manufacturer) کے لیئے سرٹیفکیٹ کی حیثیت نہیں ہے۔
نیز ہمارا یہ فتوی موجودہ پیکٹ پر درج اجزائے ترکیبی کے بارے میں ہے لہذا اگر کمپنی آئندہ اجزائے ترکیبی میں کوئی تبدیلی کر ےتو ہمارا یہ فتوی اس کو شامل نہ ہوگا۔
إحياء علوم الدين(2/ 92)میں ہے:
«أما المعادن فهي أجزاء الأرض وجميع ما يخرج منها فلا يحرم أكله إلا من حيث أنه يضر بالآكل….. وأما النبات فلا يحرم منه إلا ما يزيل العقل أو يزيل الحياة أو الصحة»
رد المحتار (10/45)میں ہے:
«وفي الخانية وغيرها: لبن المأكول حلال»
صحیح بخاری (رقم:5507) میں ہے:
عن عائشة رضي الله عنها: «أن قوما قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: إن قوما يأتوننا باللحم لا ندري أذكر اسم الله عليه أم لا، فقال: سموا عليه أنتم وكلوه» قالت: وكانوا حديثي عهد بالكفر
فتح الباری (9/ 635) میں ہے:
«ويستفاد منه أن كل ما يوجد في أسواق المسلمين محمول على الصحة وكذا ما ذبحه أعراب المسلمين لأن الغالب أنهم عرفوا التسمية»
تبیین الحقائق(6/219) میں ہے:
’’ألا ترى أن أسواق المسلمين لا تخلو عن المحرم من مسروق ومغصوب، ومع ذلك يباح التناول اعتمادا على الظاهر‘‘
بہشتی زیور (ص:775) میں ہے:
’’نباتات سب پاک اور حلال ہیں الا آنکہ مضر یا مسکر ہو۔‘‘
بہشتی زیور (ص:770) میں ہے:
’’جمادات سب پاک اور حلال ہیں الا آنکہ مضرہو یا نشہ لانے والا ہو۔‘‘
بہشتی زیور (ص:606) میں ہے:
’’جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے ان کا دودھ بھی حرام اور نجس ہے اور حلال جانور کا دودھ حلال اور پاک ہے۔‘‘
امداد الفتاوی(4/96)میں ہے:
’’سوال (۲۳۷۴) : جب سے پتہ لگا ہے کہ بعض ولایتی رنگوں میں اسپرٹ کا شبہ ہے اسی وقت سے جب بھی کپڑا پہنتا ہوں تو طبیعت میں شک رہتا ہے کہ یہ کہیں ناپاک نہ ہو، حضرت اقدس ارشاد فرماویں کہ ولایتی رنگ دار کپڑوں مثلاً رنگین گرم کپڑے، رنگین دھاری دار سرد کپڑے، عورتوں کے لئے پختہ رنگ کی رنگین چھینٹیں وغیرہ بلا دھوئے پہننے اور پہن کر نماز پڑھنے میں حرج تو نہیں ہے؟
(۲) حضرت والا یہ بھی ارشاد فرماویں کہ عورتوں کے لئے ولایتی رنگوں سے دوپٹہ وغیرہ رنگ کر پہننے کا کیا حکم ہے؟
الجواب: اول تو خود ان رنگوں میں جزونجس شامل ہونے میں شبہ پھر ان کپڑوں میں ان رنگوں کے شامل ہونے میں شبہ تو کپڑوں کے نجس ہونے کا شبہۃ الشبہہ ہوگیا؛ اس لئے فتوے سے گنجائش ہے باقی اگر کوئی ورع اختیار کرلے اولیٰ واحسن ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved