- فتوی نمبر: 31-126
- تاریخ: 08 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > رخصتی سے قبل طلاق
استفتاء
السلام علیکم مفتی صاحب ! عید الاضحی کے تیسرے دن ہمارا نکاح ہوا اور ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ چار مہینے کے بعد گھر والوں کا آپس میں جھگڑا ہو گیا تو میں نے اپنی ماں اور پھوپھی اور پھوپھی زاد کی موجودگی میں یہ کہا کہ ” میں اپنی بیوی کو چھوڑتا ہوں اسے طلاق دیتا ہوں “صرف یہ الفاظ کہے تھے ان الفاظ میں طلاق کی نیت تھی ۔اس کے بعد میری والدہ نے مجھے چپ کروا دیا اور معاملہ ختم ہو گیا ۔ ابھی تک خلوت صحیحہ نہیں ہوئی تھی ۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا آٹھ مہینے کے بعد اگلی عید کے بعد ہماری رخصتی ہو گئی اور اس کے تقریبا ایک سال کے بعد پھر آپس میں جھگڑا ہوا میں نے اپنے چچا اور چچی اور پھوپھی کے سامنے تین طلاقیں دے دیں یہ الفاظ تھے “میں نے تین طلاقیں دیں ” ۔
جب پہلی مرتبہ طلاق دی تھی تو خلوت صحیحہ نہیں ہوئی تھی اس کے ڈیڑھ سال بعد دوسری مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا۔اور جب پہلے طلاق دی تھی اس کے بعد تجدید نکاح نہیں کیا تھا اس غلط فہمی میں کہ طلاق رجعی ہوئی ہے۔ہم نے کسی مفتی صاحب سے مسئلہ نہیں پوچھا تھا میں نے درسِ نظامی پڑھا ہو اہے ۔اب میں جماعت میں سال لگا رہا ہوں ، جماعت میں نکل کر جب میں نے مفتیان کرام کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ کچھ گنجائش نکل سکتی ہے ۔
وضاحت مطلوب : شوہر اور بیوی دونوں حلفاً بیان دیں کہ پہلی دفعہ طلاق کے واقعہ سے پہلے کبھی تنہائی میں نہیں ملے تھے اور طلاق کے بعد دوبارہ نکاح کے بغیر ہی رہتے رہے ۔
جواب وضاحت : حلف نامہ ساتھ لف ہے ۔
بیان ِ حلفی از شوہر :
میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ بات حلفاً کہتا ہوں کہ ہماری پہلے واقعہ سے پہلے نکاح کے بعد کبھی تنہائی میں ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی ہم نے تجدید نکاح وغیر ہ یا کوئی رجوع کیا میں یہ حلفا بیان دے رہا ہوں ۔ ****
بیان حلفی از بیوی :
مجھے شوہر کے بیان سے اتفاق ہے ۔ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ بات حلفاً کہتی ہوں کہ ہماری پہلے واقعہ سے پہلے نکاح کے بعد کبھی تنہائی میں ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی ہم نے تجدید نکاح وغیرہ یا کوئی رجوع کیا میں یہ حلفا بیان دے رہی ہوں ۔ *****
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً پہلی طلاق کے بعد میاں بیوی نے نیا نکاح نہیں کیا تھا تو ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ سابقہ نکاح ختم ہوگیا ۔ اس کے بعد میاں بیوی جو بغیر نکاح کے اکٹھے رہتے رہے ہیں یہ بڑی کوتاہی اور سخت گناہ کی بات ہے لہٰذا میاں بیوی دونوں اس پر اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کریں ۔ میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں ۔ دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق ہوگا ۔
توجیہ : رخصتی سے پہلے اگر صریح الفاظ میں طلاق دی جائے تب بھی بائنہ طلاق ہی واقع ہوتی ہے اور بیوی پر عدت بھی نہیں ہوتی لہذا شوہر کے الفاظ “میں اپنی بیوی کو چھوڑتا ہوں “سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی اور “اسےطلاق دیتا ہوں ” کے الفاظ لغو ہو گئے کیونکہ بیوی طلاق کا محل نہیں رہی ، پھر چونکہ اس کے بعد نیا نکاح نہیں ہوا لہذا طلاق کا محل نہ ہونے کی وجہ سے رخصتی کے بعد کہے گئے الفاظ بھی لغو ہو گئے اور مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔
ہدایۃ (1/ 233) میں ہے :
وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها ……… فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة “
ہدایۃ (2/ 257) میں ہے :
«فصل فيما تحل به المطلقة
” وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها ” لأن حل المحلية باق»
فتاوی شامی(3/330) میں ہے :
(قوله ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة أو عن فسخ بتفريق لإباء أحدهما عن الإسلام أو بارتداد أحدهما
مسائل بہشتی زیور (2/112) میں ہے :
ابھی رخصتی نہ ہونے پائی تھی کہ شوہر نے طلاق دے دی یا رخصتی تو ہوگئی لیکن خلوت صحیحہ سے پہلے ہی شوہر نے طلاق دے دی تو طلاق بائن پڑی چاہے صریح لفظوں میں طلاق دی ہویا کنایہ لفظوں میں ۔ ایسی عورت کے لیے طلاق کی عدت بھی کچھ نہیں ہے۔ طلاق ملنے کے فوراً بعد دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved