• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رکوع ، سجدہ کی تسبیحات اور التحیات کو کتنی آواز سے پڑھا جائے؟

استفتاء

1۔بعض لوگ ظہر عصر کی جماعت میں اتنی آواز سے رکوع سجدہ کی تسبیحات، التحیا ت کے الفاظ پڑھتے ہیں کہ مسجد کے نمازی ان کی آواز سنتے ہیں اس سے نماز میں فرق تو نہیں پڑتا جبکہ بعض لوگوں کو اس سے الجھن بھی ہوتی ہے اصل میں ان کی توجہ منتشر ہوتی ہے۔

2۔کیا جہری نمازوں کی جماعت میں اجازت ہے جو ایسا کرے اس کی نماز کا کیا ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1،2۔رکوع سجدہ کی تسبیحات اور التحیات  کو  آہستہ آواز سے پڑھنا چاہیے خواہ سری نماز ہو یا جہری نماز ہو اور آہستہ آواز سے پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اتنی اونچی آواز سے پڑھا جائے کہ خود پڑھنے والے کے کانوں تک آواز پہنچ جائے۔ تاہم غیر اختیاری طور  پر کسی کی آواز اس سے زیادہ اونچی ہوجاتی ہے  تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ اختیاری طور پر اس سے زیادہ اونچی آواز سے پڑھنا خلاف سنت ہوگا۔

ہندیہ (1/70) میں ہے:

وأما ما سوى ذلك فلا يجهر به مثل التشهد وآمين والتسبيحات

حلبی کبیر(ص:275) میں ہے:

القراءة وهو تصحيح الحروف بلسانه بحيث يسمع نفسه فان صح الحروف من غير ان يسمع نفسه لايكون ذلك قراءة فى اختيار الهندوانى والفضلى………… قيل اذا صح الحروف يجوز وان لم يسمع نفسه وهو اختيار الكرخى رحمه الله تعالى.

ہندیہ (1/72) میں ہے:

(سننها) رفع اليدين للتحريمة ونشر اصابعه وجهر الامام بالتكبير والثناءوالتعوذ والتسمية والتأمين سرا.

شرح الوقایہ (1/303) میں ہے:

واتفقوا على اخفائه لقول ابن مسعود رضى الله تعالى عنه: (من السنة أن يخفى التشهد)……….

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved