- فتوی نمبر: 30-219
- تاریخ: 08 جولائی 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز پڑھنے کا طریقہ
استفتاء
نماز میں ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کے لیے“اللہ اکبر” کو لازم قرار دیا گیا ہے جبکہ رکوع سے قیام کی طرف جانے کے لیے“سمع اللہ لمن حمدہ” کو لازم قرار دیا جس میں حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ پڑھا جاتا ہے۔ سمع اللہ لمن حمدہ کی کیا توجیہ ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جس موقع کا جو ذکر صحیح احادیث سے ثابت ہو اس کی توجیہ یا حکمت کا معلوم ہونا ضروری نہیں تاہم اس کی توجیہ یہ ہے کہ چونکہ اس موقع پر مقتدیوں کو “ربنا لک الحمد” کہنے کا حکم ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس حمد کو سننے یعنی قبول کرنے کی خبر اپنے نبی ﷺ کے ذریعہ دنیا ہی میں دیدی۔ نیز بعض کتابوں میں اس کی یہ توجیہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ابتداء اسلام میں جب نماز فرض ہوئی تھی تو ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف جاتے ہوئے اللہ اکبر کہا جاتا تھا لیکن ایک خاص واقعہ کی وجہ سے رکوع سے اٹھتے ہوئے “سمع اللہ لم حمدہ” کہا جانے لگا۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی کوئی نماز حضورﷺ کے پیچھے فوت نہیں ہوئی تھی البتہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا تو انہوں نے گمان کیا کہ آج میں آپﷺ کے پیچھے نما ز نہیں پڑھ سکوں گا تو اس وجہ سے بہت پریشان ہوئے اور مسجد کی طرف تیزی سے چلنے لگے، جب مسجد میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ کو رکوع کے لیے تکبیر کہتے ہوئے پایا تو اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کی حمد کی یعنی زبان سے “الحمد للہ”کہا اور “اللہ اکبر” کہہ کر آپﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔آپﷺ رکوع میں تھے کہ حضرت جبرائیل ؑ تشریف لائے اور عرض کیا: اے محمد! اللہ تعالیٰ نے اس بندے کی حمد سن لی جس نے اس کی حمد کی اور فرمایا کہ آپ بھی “سمع اللہ لمن حمدہ” کہہ دیجئے تو آپﷺ نے رکوع سے اٹھتے ہوئے “سمع اللہ لمن حمدہ” کہا جبکہ اس سے پہلے آپﷺ رکوع کے لیے جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے تکبیر یعنی “اللہ اکبر” کہا کرتے تھے۔ اس واقعہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی برکت سے رکوع سے اٹھتے ہوئے “سمع اللہ لمن حمدہ” کہنا مشروع ہوگیا۔
صحیح مسلم (1/346) میں ہے:
عن ابن أبي أوفى، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا رفع ظهره من الركوع، قال: «سمع الله لمن حمده، اللهم ربنا لك الحمد، ملء السماوات، وملء الأرض وملء ما شئت من شيء بعد»
سنن ابی داؤد (1/233) میں ہے:
سمعت عبد الله بن أبي أوفى، يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفع رأسه من الركوع يقول: «سمع الله لمن حمده، اللهم ربنا لك الحمد ملء السموات وملء الأرض، وملء ما شئت من شيء بعد»
بذل المجہود (4/521) میں ہے:
(وإذا قال: سمع الله لمن حمده فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد يسمع الله لكم) أي لحمدكم سماع قبول (فإن الله عز وجل قال على لسان نبيه – صلى الله عليه وسلم -) أي ليعلمكم: (سمع الله لمن حمده) فأصل هذه الكلمة إخبار من الله تعالى بسماع حمد عباده على لسان نبيه – صلى الله عليه وسلم -، ثم أجراها على لسان عباده بواسطة نبيه – صلى الله عليه وسلم –
شرح مختصر خلیل للخراشی لمحمد بن عبد اللہ الخرشی المالکی (المتوفی 1101) (276\1) میں ہے:
والأصل في مشروعية سمع الله لمن حمده «أن الصديق – رضي الله عنه – لم تفته صلاة خلف الرسول – صلى الله عليه وسلم – فجاء يوماوقت صلاة العصر فظن أنها فاتته معه – عليه الصلاة والسلام – فاغتم لذلك وهرول ودخل المسجد فوجده – صلى الله عليه وسلم – مكبرا في الركوع فقال الحمد لله وكبر خلف الرسول فنزل جبريل والنبي في الركوع فقال يا محمد سمع الله لمن حمده فقل سمع الله لمن حمده فقالها عند الرفع من الركوع وكان قبل ذلك يركع بالتكبير ويرفع به» فصار سنة من ذلك الوقت ببركة أبي بكر
حاشیۃ الجمل لسلیمان بن عمر بن المنصور العجیلی الشافعی (المتوفی 1204 ) (366) میں ہے:
جميع التكبيرات غير التحرم للانتقال من بعض الأركان إلى بعض لا لها وحكمة هذا «أن أبا بكر – رضي الله عنه – كان لا تفوته الصلاة مع النبي – صلى الله عليه وسلم – فتأخر يوما فجاء وأدرك النبي – صلى الله عليه وسلم – في الركوع فقال الحمد لله فنزل جبريل على النبي – صلى الله عليه وسلم – وقال: سمع الله لمن حمده اجعلوها في صلاتكم.
الفواکہ الدوانی علی رسالۃ القیرانی لاحمد بن غنم بن سالم شہاب الدین النفراوی المالکی (متوفی 1126) (181\1) میں ہے:
الأصل في مشروعية التسميع والتحميد «أن الصديق – رضي الله عنه – لم تفته صلاة خلف الرسول – صلى الله عليه وسلم -، فجاء يوما وقت العصر فظن أنها فاتته معه – عليه الصلاة والسلام – فاغتم لذلك وهرول ودخل المسجد فوجده – صلى الله عليه وسلم – مكبرا في الركوع فقال: الحمد لله وكبر خلف الرسول – صلى الله عليه وسلم – فنزل جبريل والنبي – عليه الصلاة والسلام – في الركوع فقال: يا محمد سمع الله لمن حمده فقل سمع الله لمن حمده فقالها عند الرفع من الركوع، وكان قبل ذلك يركع بالتكبير، ويرفع به» فصارت سنة من ذلك الوقت ببركة أبي بكر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved