• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سجدہ سہو کسی واجب کوچھوڑنے سے لازم ہوتا ہےکیا ؟

استفتاء

پوچھنا یہ تھا کہ نماز کے کچھ واجبات ایسے ہیں جن کے چھوڑنے سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کے چھوڑنے سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا ان کی نشاندہی کیسے کی جائے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نماز کے کچھ واجبات وہ ہیں جن کا تعلق نماز کی ذات سے ہے اور انہیں نماز کے اصلی واجبات کہتے ہیں جن کی مشہور تعداد چودہ ہے ان میں سے کسی واجب کو بھول کر چھوڑنے سے سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے۔

اور کچھ واجبات ایسے ہیں جن کا تعلق نماز کی ذات سے نہیں مثلا سورتوں کو ترتیب سے پڑھنا واجب ہے لیکن اس کا تعلق نماز کی ذات سے نہیں بلکہ یہ قرات ( قرآن پڑھنے) کا واجب ہے ایسے واجبات میں سے کوئی واجب بھول کر رہ جائے تو اس کی وجہ سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا ہے۔ایسے واجبات کی فقہاء کرام نے کوئی خاص تعداد ذکر نہیں فرمائی اس لیے کبھی کوئی صورت درپیش ہو تو موقع پر معلوم کر لیا جائے۔

عالمگیری (1/270) میں ہے:

ولا يجب السجود الا بترك واجب او تاخيره او تاخيرر كنه او تقديمه او تكراره او تغىر واجب بان يجهر فيما يخافت وفي الحقيقه وجوبه بشىء واحد وهو ترك الواجب

شامی (2/655) میں ہے:

(بترك واجب) اي :من واجبات الصلاة الاصلية لا كل واجب اذ لو ترك ترتيب السور لا يلزمه شيء مع کونه واجبا بحر

نہر الفائق (1/332) میں ہے:

(يجب بعد السلام سجدتان وتسليم بترك واجب) تكلم المشايخ في الموجب للسهو واجمع ما قيل في انه ترك الواجب وعليه المحققون وهو الاصح وقيده في” البحر ” بالاصلى لما في "التجنيس "لو قراءسورة ثم ما قبلها ساهىاً لاىجب عليه السجود لان مراعاةترتيب نظم السورةمن واجبات القران لا من واجبات الصلاة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved