- فتوی نمبر: 29-34
- تاریخ: 30 جولائی 2023
استفتاء
حكم رفع القدمين اثناء السجود
السوال: يشاهد على بعض المصلين انه فى اثناء سجوده يرفع احدى قدميه أو كليهما فما حكم هذا الفعل؟
الجواب: لايجوز للساجد أن يرفع من أعضائه السبعة: لأن النبى صلى الله عليه وسلم قال[أمرنا أن نسجد على سبعة أعظم، على الجبهة وأشاربيده إلى أنفه،والكفين،والركبتين وأطراف القدمين] فإذا رفع رجليه أو إحداهما أو يديه أو إحداهما أو جبهته أو أنفه أو كليهما فإن سجوده يبطل ولايعتد به وإذا بطل سجوده ولم يأت ببدله على وجه مشروع فان صلاته باطلة.[لقاء الباب المفتوح،اللقاء رقم:25]
ترجمہ: سجدے کے درمیان پاؤں اٹھانے کا حکم
سوال: بعض نمازیوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ سجدے میں ایک یا دونوں پاؤں (زمین سے) اٹھاتے ہیں تو اس فعل کا کیا حکم ہے؟
جواب: سجدہ کرنے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے سات اعضاء میں سے کسی عضو کو (زمین سے) اٹھائے اس لیے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:ہمیں سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے”پیشانی پر (یہ فرماتے ہوئے آپﷺ نے اپنی ناک کی طرف اشارہ فرمایا)،دونوں ہاتھو ں پر،دونوں گھٹنوں پر اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر” لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے دونوں پاؤں یا ایک پاؤں یا دونوں ہاتھ یا ایک ہاتھ یا پیشانی یا ناک یا پیشانی اور ناک دونوں (زمین سے) اٹھائے تو اس کا سجدہ باطل ہوجائے گا اور اس سجدے کا کوئی اعتبار نہیں اور جب اس کا سجدہ باطل ہوگیا اور اس نے مشروع طریقے پر اس سجدے کا بدل بھی ادانہیں کیا تو اس كی نماز باطل ہے۔
محترجناب مفتی صاحب !عبارت میں ذکر کیا گیا مسئلہ کس امام کا مذہب ہے اور اس بارے میں احناف کا کیا مؤقف ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ حنابلہ کا مذہب ہے۔ حنفیہ کا مؤقف اس بارے میں یہ ہے کہ اگر پورے سجدے میں دونوں پاؤں مکمل اٹھے رہے یعنی پورے سجدے میں تھوڑی دیر کے لیے بھی کسی پاؤں کی کوئی ایک انگلی بھی زمین پر نہ لگ سکی تو نماز نہ ہوگی ورنہ نماز ہوجائے گی۔
المغنی لابن قدامہ(1/361) میں ہے:
مسألة: قال: ويكون أول ما يقع منه على الأرض ركبتاه، ثم يداه، ثم جبهته وأنفه …………… فصل: والسجود على جميع هذه الأعضاء واجب، إلا الأنف، فإن فيه خلافا ولنا ما روى ابن عباس قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «أمرت بالسجود على سبعة أعظم؛ اليدين، والركبتين، والقدمين، والجبهة» . متفق عليه ……….. فإن أخل بالسجود بعضو من هذه الأعضاء، لم تصح صلاته عند من أوجبه
ردالمحتار(2/127) میں ہے:
ومنها السجود بجبهته وقدميه، ووضع إصبع واحدة منهما شرط
(قوله بجبهته) أي حيث لا عذر بها. وأما جواز الاقتصار على الأنف فشرطه العذر على الراجح كما سيأتي. قال ح: ثم إن اقتصر على الجبهة فوضع جزء منها وإن قل فرض ووضع أكثرها واجب (قوله وقدميه) يجب إسقاطه لأن وضع إصبع واحدة منهما يكفي كما ذكره بعد ح. وأفاد أنه لو لم يضع شيئا من القدمين لم يصح السجود
ردالمحتار(2/247) میں ہے:
(ويسجد واضعا ركبتيه ثم يديه)
(قوله واضعا ركبتيه ثم يديه) قدمنا الخلاف في أنه سنة أو فرض أو واجب وأن الأخير أعدل الأقوال، وهو اختيار الكمال
ردالمحتار(2/249) میں ہے:
وفيه يفترض وضع أصابع القدم ولو واحدة نحو القبلة وإلا لم تجز، والناس عنه غافلون
قوله (وفيه يفترض ..الخ) فصار في المسألة ثلاث روايات: الأولى فرضية وضعهما. الثانية فرضية إحداهما. الثالثة عدم الفرضية، وظاهره أنه سنة……….. وقال في الحلية: والأوجه على منوال ما سبق هو الوجوب لما سبق من الحديث اهـ أي على منوال ما حققه شيخه من الاستدلال على وجوب وضع اليدين والركبتين، وتقدم أنه أعدل الأقوال فكذا هنا، فيكون وضع القدمين كذلك واختاره أيضا في البحر والشرنبلالية
مسائل بہشتی زیور(1/166،165) میں ہے:
مسئلہ: اگر سجدہ کیا اور دونوں پاؤں زمین پرنہ رکھے تو جائزنہیں اور اگر ایک پاؤں رکھے تو عذر کے ساتھ بلاکراہت جائز ہے اور بلاعذر کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ پاؤں کا رکھنا انگلیوں کے رکھنے سے ہوتا ہے اگرچہ ایک ہی انگلی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved