• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

صلوٰۃ التسبیح صغریٰ

استفتاء

حضرت ہمارے ایک بڑے شیخ حضرت اقدس مولانا شمس الرحمان عباسی صاحب مدظلہ ہیں ۔انہوں نے ایک بیان میں صلوٰۃ التسبیح صغریٰ کے بارے میں بیان فرمایا کہ کسی  بھی نفل نماز میں تشہد کے آخر میں نماز والی  دعائیں پڑھ کر سلام سے پہلے 10 مرتبہ سبحان اللہ، 10 مرتبہ الحمدللہ اور 10 مرتبہ اللہ اکبر پڑھیں اور پھر سلام پھیر دیں۔

حضرت اقدس نے اس پر اسلاف سے حوالہ جات بھی پیش کیے اور فائدہ میں فرمایا کہ اس عمل سے دعائیں قبول ہوتی ہیں اور گناہ معاف ہوتے ہیں اور نیکی تقوی کا شوق پیدا ہوتا ہے آپ سے دریافت کرنا تھا کہ کیا یہ عمل فرض نماز اور سنت کے آخر میں بھی کر سکتے ہیں یا صرف نفل میں ہی کرنے کی اجازت ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  عمل فرض نماز اور سنت کے آخر میں بھی کرسکتے ہیں تاہم بہتر یہ ہے کہ مذکورہ عمل صرف نوافل میں کیا جائے۔

نجاۃ المسلمین ،مؤلفہ مفتی محمد شفیع صاحبؒ (ص:29) میں ہے:

صلوةتسبیح مشہور تو وہی ہے جس کی صورت اوپر لکھی گئی اور فضائل مذکور بھی اس کے لیے منقول ہے مگر بعض روایت حدیث میں ایک اور صورت بھی منقول ہے جو مقاصد دینیہ اور دنیویہ پورے ہونے کے لیے مجرب ہےاس کو مشائخ نے صلاۃ صغری کے نام سے موسوم کیا ہے اس کی صورت یہ ہے ۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسند میں اور ترمذی نے با ب ماجاءفی الصلوۃ التسبیح میں،  نسائی نے سنن میں، ابن خزیمہ، ابن حبان نے اپنی اپنی صحیح میں اور حاکم نے مستدرک میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوچند کلمات سکھائے ہیں جن کو وہ نماز کے اندر پڑھ لے تو جو دعا مانگے وہ قبول ہو  وہ کلمات یہ ہیں  سبحان اللہ دس مرتبہ الحمدللہ 10 مرتبہ اللہ اکبر 10 مرتبہ۔

فائدہ: اس مختصر صلاةتسبیح میں جو 10 مرتبہ کلمات مذکورپڑھنا منقول ہے اس کا کوئی خاص محل نہ روایت حدیث میں متعین کیا گیا اور نہ علماء مشائخ میں سے کسی کی نقل دیکھی اس لیے ظاہر یہ ہے کہ مصلی کو اختیار ہے جس رکن میں چاہے پڑھ لے یا آخر میں تشہد کے بعد پڑھ لے۔

سنن نسائی (رقم الحدیث:1299) میں ہے:

عن أنس بن مالك، قال: جاءت أم سليم إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، ‌علمني ‌كلمات أدعو بهن في صلاتي؟ قال: ” سبحي الله عشرا، واحمديه عشرا، وكبريه عشرا، ثم سليه حاجتك يقل: نعم، نعم “

شامی (1/505) میں ہے:

وكذا لا يأتي في ركوعه وسجوده بغير التسبيح (على المذهب) وما ورد ‌محمول ‌على ‌النفل

(قوله ‌محمول ‌على ‌النفل) أي تهجدا أو غيره خزائن. وكتب في هامشه: فيه رد على الزيلعي حيث خصه بالتهجد. اهـ. ثم الحمل المذكور صرح به المشايخ في الوارد في الركوع والسجود، وصرح به في الحلية في الوارد في القومة والجلسة وقال على أنه إن ثبت في المكتوبة فليكن في حالة الانفراد، أو الجماعة والمأمومون محصورون لا يتثقلون بذلك كما نص عليه الشافعية، ولا ضرر في التزامه وإن لم يصرح به مشايخنا فإن القواعد الشرعية لا تنبو عنه، كيف والصلاة والتسبيح والتكبير والقراءة كما ثبت في السنة

نخب الأفكار في شرح معاني الآثار (3/ 539)میں ہے:

وقال ابن الجوزي: كان ذلك في ابتداء الأمر أو في النافلة. وقال الكاساني من أصحابنا: تأويل ذلك أنه كان يقول ذلك في التطوعات والأمر فيها أوسع، وأما الفرائض فلا يزاد فيها على ما اشتهر فيه الذكر، وهو قوله: “سبحانك اللهم … ” إلى آخره، أو كان ذلك في الابتداء ثم نسخ بالآية، وهي قوله تعالى: {وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ} ذكر الجصاص عن الضحاك عن ابن عمر  رضي الله عنهما “أنه قول المصلي عند الافتتاح: سبحانك اللهم وبحمدك”.

وقال ابن أبي شيبة في “مصنفه” : ثنا هشيم قال: أنا جويبر، عن الضحاك في قوله تعالى: {وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ} قال: “حين تقوم إلى الصلاة تقول هؤلاء الكلمات: سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا إله غيرك”.

امانی الاحبار  (25/1)میں ہے؛

واما ابو حنيفه ومحمد واحمد والثوري وغيرهم فلا يزيد على الثناء شيئا في الفرائض  وحملوا الادعية الواردة في هذا الباب على صلاة الليل والنوافل   قال ابو داود الطيالسی بعد ما روى حديث على رضى الله تعالى عنه في التوجيه هذا في صلاة الليل. وقال في البدائع ثم تأويل ذلك كله انه كان يقول ذلك في التطوعات  والامر فيها اوسع واما في الفرائض فلا يزاد على ما اشتهرفيه الأثر أو كان في الابتداء ثم نسخ بالآية وتأيد ماروينا بمعاضدة الآية انتهى قال ابو بكر الجصاص في الاحكام بعد ما ذكرالتوجية ثم الثناء والاول كان يقوله عندنا قبل ان ينزل فسبح بحمد ربك حين تقوم فلما نزل ذلك وامر بالتسبيح عند القيام الى الصلاة ترك الاول وقد اخرج سعيد بن منصور عن الضحاك انه قال في الآية حين تقوم الى صلاة تقول هؤلاء الكلمات سبحانك اللهم الى اخره وحكاه في البحر عن ابن عباس كذا في روح المعاني  قد روي مثله عن الربيع بن  ا نس وعبد الرحمن بن زيد بن اسلم وغيرهما كما في التفسير لابن كثيرو في تفسير الآية اقوال اخرى وقال ابن الجوزي كما في العيني كان ذلك في اول الامر اوالنافلة  وقال ابن قدامة في المغني العمل به متروك فان لا نعلم احدا  يستفتح به كله وانما يستفتحون باوله. وقال في الكوكب الدري ومع هذا كله لو قرأ في صلاته المفروضة شيئا من تلك الزيادات الثابتة تصح صلاته من غير شائبة كراهية خلافا لما قاله بعض من لا يعتد بقوله من انه يلزم عليه بذلك سجدة السهو  بتاخير الفرض الثاني فانه ليس الامر على هذا عند الامام والا لزم سجده السهو باطالة القيام انتهى

فتاوی محمودیہ (5/613) میں ہے :

نماز میں رکوع سجدے میں تسبیحات پر ہی کفایت مناسب ہے ،قرآن کریم کی تلاوت سے احتراز کیا جائے ،اگرچہ قرآنی دعا پڑھنے سے بھی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ بعض دعائیں حدیث شریف میں آئی ہیں۔ نوافل میں ان کے پڑھنے میں مضائقہ نہیں۔

امداد الفتاویٰ (1/329) میں ہے:

اور سنن مؤکدہ بہت احکام میں مشابہ  فرض کے ہیں تو اس میں بھی احتیاطا اس کے ساتھ ملحق کہی جاویں گی ۔ پس جن احادیث میں دعاء فی السجود  وارد ہے یا تو محمول ہے فعل احیانا پر اور یا نوافل پر۔

فتاویٰ حقانیہ (3/95) میں ہے:

سوال: احادیث کی کتابوں میں حضور انورﷺ سے تکبیر تحریمہ کے بعد بعض دعائیں مروی ہیں کیا یہ دعائیں فرائض وسنن سب میں پڑھی جاسکتی ہیں یا کہ صرف نوافل میں؟

جواب: اگرچہ احادیث مبارکہ میں حضور انورﷺ سےنمازمیں مختلف مقامات پر ادعیہ منقول ہیں لیکن علماء احناف  نے یہ روایات نوافل میں پڑھنے پرمحمول کی ہیں اور یہ دعائیں نفلی نماز میں پڑھی جائیں گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved