- فتوی نمبر: 30-380
- تاریخ: 22 ستمبر 2023
استفتاء
مفتی صاحب عرض یہ ہےکہ ہمارے گاوں کے ساتھ سر کاری جنگل ہے اس جنگل پر سرکار اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے اس جنگل سے لوگ استعمال کیلئے لکڑیاں کاٹ کر لاتے ہیں حالانکہ سرکاری جنگل سے گورنمنٹ یہ اجازت نہیں دیتی کہ لکڑیاں کاٹی جائیں اور لوگ اگر اس جنگل سے لکڑیاں نہ کاٹیں تو کیا کریں اپنی زمینوں میں گزارا نہیں ہوتا اب چند سوالوں کا جواب مطلوب ہے:
(1)کیا ایسی صورت حال میں لکڑیاں کاٹنا جائز ہے ؟
(2) بعض لوگوں کی رائے ہے کہ چونکہ یہ درخت خود رو ہیں اس لیے ان کا استعمال ہر صورت میں جائز ہے۔ یہ خود رو کے مسئلے کی بھی وضاحت فرمادیں کہ کون کون سی چیزیں ہیں جو خودرو ہونے کی وجہ سے کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتیں، یہ جنگل جس پر سر کار اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے کیا اسکے درخت بھی سرکار کی ملکیت شمار ہوں گے یا خود رو ہونے کی وجہ سے یہ کسی کی ملکیت شمار نہ ہوں گے؟
(3)اس جنگل پر ہمارے گاوں کی طرف سے ایک کمیٹی بنی ہے، چالیس سال سے کمیٹی اس جنگل کی حفاظت کرتی ہے صرف ضرورت کیلئے لوگوں کو درخت کاٹنے کی اجازت دیتی ہے بلا ضرورت جو بھی درخت کا ٹے اس پر جرمانہ لگاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ادھر ادھر کے جنگلوں کی بنسبت ہمارے جنگل کی بہت اچھی حفاظت ہوئی ہے لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کمیٹی کا دیا ہوادرخت بھی استعمال میں لانا حرام ہے کیونکہ یہ سرکاری ہے کیا اس کمیٹی کی اجازت معتبر ہوگی ؟
(4)اگر گاؤں کے لوگ اس کمیٹی کو ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر کے پاس رجسٹرڈ کروالیں تو کیا پھر اس کمیٹی کی اجازت سے اس جنگل سے لکڑیوں کا استعمال جائز ہو گا یا پھر بھی جائز نہ ہوگا؟
وضاحت مطلوب ہے: یہ کمیٹی کس نے بنائی ہے؟ اور کیوں بنائی ہے؟ نیز کمیٹی جرمانے کی رقم کا کیا کرتی ہے؟ نیز کمیٹی سوال میں ذکر کردہ تفصیلات سے متفق ہے؟
جواب وضاحت: کمیٹی گاؤں کے لوگوں نے بنائی ہے جبکہ ابھی تک باقاعدہ طور پر حکومت کے ہاں رجسٹر ڈ نہیں ہے لیکن محکمہ جنگلات کو پتہ ہے کہ ابھی تک جنگل کی حفاظت اس کمیٹی کی وجہ سے ہے ۔کمیٹی کا مقصد جنگل کی حفاظت ہے کیونکہ اس جنگل سے انہی لوگوں کا فائدہ ہے اگر کمیٹی اسکی حفاظت نہ کرے تو کچھ ہی عرصہ میں جنگل تباہ ہوجائے گا۔کمیٹی اس پر راضی ہے کہ لوگ ضرورت کے لیے استعمال کریں۔اگر لوگ اس کمیٹی کو ختم کردیں اور کہہ دیں کہ آج کے بعد جنگل آزاد ہے جو چاہے اپنی مرضی سے اپنی ضرورت پوری کرے تو کیا اس سرکاری جنگل سے گھر میں جلانے کے لیے لکڑیاں استعمال کرنا جائز ہوگا ؟
مزید وضاحت: کمیٹی جرمانے کی رقم کا کیا کرتی ہے؟ کیا کمیٹی آپ کی ذکر کردہ تفصیلات سے متفق ہے اگر ہے تو اس کا بیان بھی ساتھ لگا دیں۔
جواب وضاحت: جرمانے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر نقصان تھوڑا ہو تو جرگے میں اس پر جرمانہ رکھ دیتے ہیں کبھی معاف بھی کردیتے ہیں لیکن زیادہ نقصان ہو تو وہ جرمانہ لیکر گاؤں کا جو اجتماعی فنڈ ہے اس میں جمع کردیتے ہیں اجتماعی فنڈ وہ ہے جو سالانہ ہم جمع کرتے ہیں میت کے خرچے کے لیے ۔کمیٹی اس ذکر کردہ تفصیلات سے متفق ہے۔باقی جو کمیٹی کے بیان کی بات ہے تو میں خود اس کمیٹی میں شامل ہوں اور میں نے جو بتایا وہ ہماری ساری کمیٹی کے ارکان کا مؤقف ہے۔ میرا بیان سب کی طرف سے ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) مذکورہ جنگل چونکہ سرکار کی ملکیتی زمین میں ہے اس لیے اس میں اگنے والے خود رُ و درخت بھی سرکار کی ملکیت ہیں لہٰذا سرکار کی جانب سے اجازت کے بغیر لکڑیاں کاٹنا جائز نہیں ۔
(2) جو خود رُو چیزیں مباح ہوتی ہیں ان سے مرا د وہ ہیں جن کا تنا نہیں ہوتا جن کا تنا ہوتا ہے وہ خود رُو ہونے کے باوجود زمین والے کی ملکیت ہوتی ہیں لہٰذا خود رو ہونے کے باوجود ان درختوں کی لکڑیوں کا استعمال مالک(حکومت) کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ۔
(3) چونکہ مذکورہ کمیٹی حکومت نے نہیں بنائی اور نہ ہی اس کو درخت کاٹنے کی اجازت دینے یا کاٹنے والے پر جرمانہ لگانے کی اجازت دی ہے اس لیے کمیٹی کا اجازت دینا یا بلا اجازت درخت کاٹنے پر جرمانہ عائد کرنا دونوں جائز نہیں ہیں۔
(4)محض فارسٹ آفیسر کے پاس کمپنی رجسٹرڈ کروانے سے جائز نہ ہوگا بلکہ حکومت کے ضابطہ کے مطابق اگر کمیٹی کو جاازت دینے کا اختیار ملے گا تو جائز ہوگا۔
شرح المجلہ(4/161) میں ہے:
المادة 1234 – الماء والكلأ والنار مباحة والناس في هذه الأشياء الثلاثة شركاء.
الكلأ كعشب الجبل رطبة ويابسة قاموس قال في البحر ويدخل فيه أنواع ما ترعاه المواشي رطباً كان أو يابساً – بخلاف الأشجار لأن الكلأ ما لا ساق له والشجر له ساق فلا تدخل فيه الأشجار حتى يجوز بيعها إذا نبتت في أرضه لكونها ملكه والكمأة كالكلا اهـ. رد المحتار من باب البيع الفاسد
شرح المجلہ(4/167) میں ہے:
المادة 1242 – الكلأ والحشيش هو النبات الذي لا ساق له فلا يشمل الشجر والفطر أيضاً في حكم الحشيش.
وقدمنا في شرح المادة 1234 أن الكمأة أيضاً كالكلا وفي رد المحتار هو أي الكلأ ما ينبسط وينتشر ولا ساق له كالإذخر ونحوه والشجر ما له ساق فعلى هذا الشوك من الشجر لأن له ساقاً وبعضهم قالوا الأخضر وهو الشوك اللين الذي تأكله الإبل كلأ والأحمر شجر، وكان أبو جعفر يقول الأخضر ليس بكلأ وعن محمد فيه روايتان اهـ
المادة 1243 – الأشجار التي تنبت بلا غرس في الجبال المباحة يعني غير المملوكة مباحة.ولا يضر نسبتها إلى قرية أو جماعة، ما لم يعلم أن ذلك ملك لهم وكذلك الزرنيخ والكبريت والثمار في المروج والأودية رد المحتار عن المضمرات.
المادة 1244 – الأشجار النابتة بلا غرس في ملك أحد هي ملكه ليس لآخر أن يحتطب منها إلا بإذنه فإن يفعل يكن ضامناً.
لا يخفى أن رقبة الأراضي في زماننا مملوكة لبيت المال وليس لمن هي في أيديهم فيها، سوى مشد المسكة وحق القرار المسمى بالطابو ولهذا لا تباع ولا تورث كما تباع وتورث الأملاك فالظاهر أن الأشجار الثابتة فيها بلا غرس تكون ملك بيت المال لأنها تبع للأرض المملوكة رقبتها له لا ملك المتصرف فيها بالطابو فتأمل وحرر.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved