• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سسر کا بہو کو سوتے ہوئے چھونا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت مفتی صاحب بندہ کو حرمت مصاہرت سے متعلق  ایک مسئلے کے سلسلہ میں  وضاحت مطلوب ہے اگر آپ تحریری طور پر جواب عنایت فرما دیں تو احسان و نوازش ہوگی جزاک اللہ خیرا  ۔

حضرت !   ہمارے خاندان میں ایک فیملی ہے شوہر کام کاج کے سلسلے میں شہر سے باہر ہوتا ہے گھر میں اس کی بیوی، تین بچے اور والدین اور بہن بھائی ہوتے ہیں ۔ہوا یہ کہ وہ  خاتون جو اس شہر سے باہر کام کرنے والے کی بیوی ہے سو رہی تھی اس کے سسر نے اسے شہوت سے چھوا بھی اور بوسہ بھی لیا  ۔اس میں عورت کی کوئی رضامندی یا مرضی شامل نہیں تھی بلکہ اسے سوئے ہوئے ہونے کی وجہ سے ان حرکات کا علم بھی نہیں تھا جب معاملہ کھلا تو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہو گئی اور یہ عورت اپنے خاوند کے لیے حرام  ہوگئی اور ان کا نکاح تا ابد ختم ہو گیا یہ سب حضرات حنفی فقہ کی پیروی کرتے ہیں اور اس لیے اس معاملے میں یہ حکم لگا رہے ہیں ۔

آپ سے استدعا ہے کہ مسئلہ مذکور میں حرمت مصاہرت کے ثابت ہونے یا نہ ہونے اور اس عورت کے اپنے خاوند کے لیے حرام ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں وضاحت فرما دیں ۔میاں بیوی دونوں پریشان ہیں اللہ آپ کو اجر عظیم سے نوازے۔ بینوا توجروا

( شوہر  ) *********                                                                     (سسر ) *********                                           ( بہو) **********

دارالافتاء سے  سسر ، بیوی اور شوہر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے درج ذیل بیانات دیے ۔

سسر کا بیان :

میں سورہا تھا ۔ میری بیٹی ( یعنی  بہو) نے مجھے جگایا  ، میں نیند میں تھا  میں نے اس کا بوسہ لے لیا   شہوت کا مجھے علم نہیں ۔ یہ واقعہ ایک مرتبہ ہوا ہے ۔

بہو  کا بیان :

یہ واقعہ چھ سات مرتبہ پیش آیا  ہے کہ  ہم سب باہر سوئے ہوتے تھے ۔ میرا سسر میری چارپائی  کے پاس آکر مجھے  ٹچ کرتا تھا جس سے میری آنکھ کھل جاتی ۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ کہاں ٹچ کیا ، بوسہ لیا یا نہیں  اور نہ ہی مجھے شہوت  ہوئی ۔

شوہر کا بیان :

 مجھے اپنی بیوی کے بیان سے اتفاق ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

دار الافتاء  سے رابطہ کرنے پر سسر اور بہو نے جو بیان دیا ہے اگر وہ واقعۃ  ً درست ہے تو مذکورہ صورت میں فقہ حنفی کی رو سے بھی حرمت مصاہرت  ثابت نہیں ہوئی اور بیوی شوہر پر حرام نہیں ہوئی کیونکہ فقہ حنفی کی رو سے بھی بوسہ اور چھونے سے بیوی کے حق میں حرمت مصاہرت ثابت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بیوی کے غالب گمان کے مطابق چھونے والے میں شہوت پیدا ہوئی ہو یا خود بیوی میں شہوت پیدا ہوئی ہو ۔اور شوہر کے حق میں حرمت مصاہرت ثابت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ شوہر بیوی کے اس بیان کی تصدیق کرے ۔جبکہ سسر اور بہو کے مذکورہ بیانات سے بیوی کے غالب گمان کے مطابق سسر یا خود بیوی میں شہوت کا ہونا ثابت نہیں ہوتا ، لہٰذا مذکورہ صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی ۔

فتاوی شامی  (3/ 38) میں ہے :

«(وتقبل الشهادة على الإقرار باللمس والتقبيل عن شهوة وكذا) تقبل (على نفس اللمس والتقبيل) والنظر إلى ذكره أو فرجها (عن شهوة في المختار) تجنيس لأن الشهوة مما يوقف عليها في الجملة ‌بانتشار أو آثار. وفي رد المحتار : لأن الشهوة مما يوقف عليه بتحرك العضو ممن يتحرك عضوه أو بآثار أخر ممن لا يتحرك عضوه.

فتح القدیر (3/213)میں ہے:

وثبوت الحرمة بمسها مشروط بأن يصدقها أو يقع في أكبر رأيه صدقها. وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه اياها: لاتحرم على أبيه وإبنه إلا ان يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه. ثم رأيت عن أبى يوسف أنه ذكر في الامالى ما يفيد ذالك، قال: إمرأة قبلت ابن زوجها وقالت كان عن شهوة، إن كذبها الزوج لايفرق بينهما، ولو صدقها وقعت الفرقة .

البحرالرائق(3/116) میں ہے:

وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة والمراهق كالبالغ ووجود الشهوة من أحدهما كاف ، فإن ادعتها وأنكرها فهو مصدق .

فتاوی ہندیہ (1/275)  میں ہے:

وحد الشهوة في الرجل أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة، كذا في التبيين. وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي، وبه يفتی .

امداد الاحکام ( 2/810) میں ہے :

 صورت مسئولہ میں احقر کے نزدیک حرمت مصاہرت اس وقت ثابت ہوگی جبکہ عورت یہ دعویٰ بھی کرے کہ جس وقت خسر نے اس کا بوسہ لیا  یا گلے سے لگایا یا سینہ سے لپٹا کر مٹھائی کھلائی اس وقت خسر کے عضو خاص میں انتشار پیدا ہو گیا تھا یا اگر پہلے سے انتشار تھا تو بوسہ لینے اور لپٹانے اور گلے لگانے کے وقت انتشار زیادہ ہو گیا تھا ، اگر عورت یہ دعویٰ  نہیں کرتی تو حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی ۔ اگر وہ انتشار یا زیادت انتشار کا دعویٰ کرے اور شوہر کا دل قبول کرے کہ یہ سچی ہے تو شوہر پر یہ عورت حرام ہوگئی۔ اور اگر وہ یہ سب دعویٰ  کرے اور شوہر  کا دل اس کے صدق کو قبول نہ کرے تو مرد پر عورت حرام نہیں ۔ مگر اس صورت میں خود عورت کو شوہر سے علیحدگی واجب ہوگی کہ اپنی خوشی سے شوہر کو اپنے اوپر قابو نہ دے۔ لان المرأة كالقاضي لا يسع لها الا الحكم بعلمها اور گو بعض فقہاء نے تقبیل و معانقہ میں مطلقاً فتویٰ حرمت کا دیا ہے مگر واقعات پر نظر کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گو بعض دفعہ تقبیل و معانقہ  بالمحارم کا داعیہ شہوت سے پیدا ہوتا ہے مگر بعض دفعہ وقت تقبیل و معانقہ کے شہوت باقی نہیں رہتی بوجہ حیا وخوف وغیرہ کے۔ اور شرطِ حرمت شہوت عن المس والتقبيل ہے نہ شہوت سابقہ نہ لاحقہ ولهذا قيد حد الشهوة بزيادة الانتشار اذا كان منتشرا قبل المس.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved