- فتوی نمبر: 16-309
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہم دو لوگ محمد احمد اورزین مصروف ایک بزنس میں پارٹنرشب کرناچاہتے ہیں،بزنس کی نوعیت یہ ہے کہ الیکٹریکل کاکام کرنا ہے بلڈنگ اور پلازوں میں،اس میں سروسز اور سپلائی دونوں شامل ہیں ،دونوں پارٹنر کام کرینگے۔
1۔اگر ایک بندہ پیسہ لگائے اور دوسرا صرف کام کرے یعنی اس کا پیسہ نہ ہو تو اس صورت میں منافع کس طرح تقسیم ہو گا؟جبکہ پہلابندہ یعنی پیسہ لگانے والا کام بھی کرے گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت نہ تو شرکت کی ہے کیونکہ سرمایہ دونوں کی طرف سے نہیں ہے بلکہ صرف ایک کی طرف سے ہے جبکہ شرکت کے صحیح ہونے کے لیے دونوں کی طرف سے سرمایہ کا ہونا ضروری ہے۔ اور نہ ہی یہ صورت مضاربت کی ہے کیونکہ مضاربت میں پیسہ لگانے والے کا کام نہ کرنا ضروری ہے، جبکہ مذکورہ صورت میں پیسہ لگانے والا بھی کام کرے گا۔لہذا یا تو دوسرا فریق بھی پیسہ لگائے تاکہ یہ شرکت کی صورت بن سکے، اس صورت میں نفع کی تقسیم باہمی رضامندی سے طے کی جاسکتی ہے اور یا پیسہ لگانے والا ساتھ کام نہ کرے تاکہ یہ مضاربت بن سکے اس صورت میں بھی نفع کی تقسیم باہمی رضامندی سے طے کی جاسکتی ہے۔
واشتراط عمل رب المال مع المضارب مفسد للعقد لانه يمنع التخلية فيمنع الصحة (الدر المختار ۵۱۱/۸)
أَمَّا الْعِنَانُ فَلِأَحَدِ شَرِيكَيْ الْعِنَانِ أَنْ يَبِيعَ مَالَ الشَّرِكَةِ لِأَنَّهُمَا بِعَقْدِ الشَّرِكَةِ إذن كُلُّ وَاحِدٍ لِصَاحِبِهِ بِبَيْعِ مَالِ الشَّرِكَةِ وَلِأَنَّ الشَّرِكَةَ تَتَضَمَّنُ الْوَكَالَةَ فَيَصِيرُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَكِيلَ صَاحِبِهِ بِالْبَيْعِ وَلِأَنَّ غَرَضَهُمَا من الشَّرِكَةِ الرِّبْحُ وَذَلِكَ بِالتِّجَارَةِ وما التِّجَارَةُ إلَّا الْبَيْعُ وَالشِّرَاءُ فَكَانَ إقدامهما على الْعَقْدِ إذْنًا من كل وَاحِدٍ مِنْهُمَا لِصَاحِبِهِ بِالْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ دَلَالَةً(بدائع الصنائع ۹۱/۵)
العمل يكون متقوما بالتقويم يعني أن العمل يتقوم بتعيين القيمة ومن الجائز أن يكون عمل شخص أكثر قيمة بالنسبة إلى عمل شخص آخر مثلا إذا كان شريكان شركة عنان ورأس مالهما متساويان وكلاهما أيضا مشروط عمله وشرط إعطاء أحدهما حصة زائدة من الربح فيكون الشرط جائزا لأنه يجوز أن يكون أحدهما في الأخذ والإعطاء أمهر وعمله أزيد وأنفع(مجلة الاخكام العدلية مادة(۱۳٤۵)
2۔کام بڑھانے کےلیے (نیا کام لینے کےلیے)جو بندہ ریفرنس دے اس کو پیسے دینا جائز ہیں؟
3۔ریفرنس کی کون کون سی صورتیں جائز ہیں اور کون کون سی ناجائز ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ریفرنس دینے والے کو پیسے دینا اس وقت دینا جائز ہے جب درج ذیل شرائط پایئ جائیں
(1)معاوضہ آپس میں پہلے سے طے ہوچاہے فیصدی تناسب سے طے ہو یا لگابندھاطے ہو۔(2) دوسری پارٹی کو بھی پتہ ہو کہ ریفرنس دینے والامالی مفاد کےتحت میں معاملے میں دلچسپی رکھتا ہے۔(3) اگر ریفرنس والا کسی کمپنی کا ملازم ہے تو اس کو اس وقت میں کام کرنا ممنوع نہ ہو(4) اس شخص کا یہ باقاعدہ کام ہو یا اسے اس کام کے لیے کچھ مشقت بھی اٹھانی پڑے صرف بیٹھے بیٹھے بتانا نہ ہو۔لیکن اگر اس شخص کایہ باقاعدہ کام ہوتوپھرعمل کا قابل مشقت ہونا ضروری نہیں۔(5)ریفرنس دینا اس شخص کی پہلے سے ذمہ داری نہ ہو جیسے کسی کمپنی کا پرچیز مینیجر وغیرہ۔
يشترط ان تكون الاجرة معلومة(مجلة الاحكام العدلية مادة ٤۵۰)
وفي «نوادر ابن سماعة» عن أبي يوسف: رجل ضلّ شيئاً، فقال: من دلني عليه فله درهم فدلّه إنسان فلا شيء له؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، ولو قال لإنسان بعينه: إن دللتني عليه فلك درهم، فإن دلّه من غير شيء معه فكذلك الجواب لا يستحق به الأجر وإن مشى معه ودلّه فله أجر مثله، لأن هذا عمل يقابل الأجر عرفاً وعادة إلا أنه غير مقدر ففسد العقد ووجب به أجر المثل.(المحیط)
4۔اگر کام کرنے کے بعد اپنے جائز پیسے نکلوانے ہوں تو اس کے لیے رشوت دینا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اپنا جائز حق وصول کرنے کے لیے رشوت دینی پڑے تو دی جاسکتی ہے اس صورت میں گناہ لینے والے کو ہو گا۔ لہذا کام کر کے اگر اجرت لینے کے لیے اس کے علاوہ چارہ نہ ہو تو رشوت دے سکتے ہیں
لا بأس بالرشوة إذا خاف على دينه قوله ( إذا خاف على دينه ) عبارة المجتبى لمن يخاف وفيه أيضا دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعنى في حق الدافع(شامی ٦/٤۲۳)
5۔جومجاز افسر(یعنی جن کام ہم کام کررہے ہیں ان کا افسر)ہمارا کام چیک کرنے کےلیے آئے اس کو کھانا کھلانا پروٹوکول دینا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مجاز افسر کو معمول کاکھانا جائزہےالبتہ غیر معمولی کھانا کھلانا رشوت ہے۔
6۔ٹیکس بچانا جائز ہے کسی بھی صورت میں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب ٹیکس یا اس کی مقدارظالمانہ حد تک پہنچ جائے اس وقت ٹیکس یا اس کی مقداربچانا جائز ہے ورنہ جائزنہیں۔
7۔اگر ہم کسی پارٹی کوکسی چیز کی اصل رقم 40روپے بتائیں اور اس پر منافع علیحدہ وصول کریں لیکن بعد میں وہ چیز 35روپے کی ملے تو جو5روپے ہیں وہ ہمارے لیے جائز ہیں؟بعض کمپنیوں سے یہ بات طے ہوتی ہے کہ جو چیز ہم انہیں دیں گے اس پر اتنا پرافٹ لیں گے ہم اس حساب سے انہیں ایک ریٹ بتادیتے ہیں،بعض دفعہ جب ہم بعد میں وہ چیز لیتے ہیں تو وہ سستی مل جاتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اس صورت میں چونکہ آپ کا آپس میں یہ طے ہوتا ہے کہ قیمت خرید پر اتنا نفع لیں گے اس لیے اگر بعد میں اگر وہ چیز سستی ملے تو ان کو بتانا ضروری ہے۔
وأما شرائطه فمنها ما ذكرناه وهو أن يكون الثمن الأول معلوما للمشتري الثاني لأن المرابحة بيع بالثمن الأول ومع زيادة ربح والعلم بالثمن الأول شرط صحة البياعات كلها لما ذكرنا فيما تقدم فإن لم يكن معلوما له فالبيع فاسد إلى أن يعلم في المجلس فيختار إن شاء فيجوز أو يترك فيبطل(بدائع الصنائع 461/4)
وأما بيان ما يجب بيانه في المرابحة وما لا يجب فالأصل فيه أن بيع المرابحة والتولية بيع أمانة لأن المشتري ائتمن البائع في إخباره عن الثمن الأول من غير بينه ولا استحلاف فتجب صيانتها عن الخيانة وعن سبب الخيانة والتهمة لأن التحرز عن ذلك كله واجب ما أمكن قال الله عز شأنه { يا أيها الذين آمنوا لا تخونوا الله والرسول وتخونوا أماناتكم وأنتم تعلمون } وقال عليه الصلاة والسلام ليس منا من غشنا وقال عليه الصلاة والسلام لوابصة بن معبد رضي الله عنه الحلال بين والحرام بين وبينهما أمور مشتبهات فدع ما يريبك إلاما لا يريبك وروي عنه عليه الصلاة والسلام أنه قال ألا إن لكل ملك حمى وإن حمى الله محارمه فمن حام حول الحمى يوشك أن يقع فيه وقال عليه الصلاة والسلام من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يقفن مواقف التهم والاحتراز عن الخيانة وعن شبهة الخيانة والتهمة إنما يحصل ببيان ما يجب بيانه فلا بد من بيان ما يجب بيانه (بدائع الصنائع 465/4)
8۔منافع کی شرح کتنی ہوسکتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
شریعت میں منافع کی کوئی شرح طے نہیں ہے البتہ انسانی اور اسلامی ہمدردی کا لحاظ ہو اور مارکیٹ ریٹ سے زیادہ نہ ہو اور کسی ناواقف کی ناواقفیت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا یعنی اس سے اتنا نفع نہ کمایا جائے کہ جس کا مارکیٹ میں عرف ورواج نہ ہو۔(ماخذہ تبویب 123/1)
© Copyright 2024, All Rights Reserved