• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شوہر کو نکاح پر طلاق معلق کرنے کا کہا، شوہر نے جی ہاں کہہ دیا تو کیا طلاق معلق ہوگئی؟

استفتاء

*** ایک بری عادت (سگریٹ نوشی )میں مبتلا تھا ۔ ایک روز دورانِ گفتگو اس کے ایک دوست نے اس سے دریافت کیا “کیا تم نے کبھی اپنی زندگی میں سگریٹ نوشی کی ہے؟”***نے انکار کرتے ہوئے جواب دیا، “نہیں، میں نے کبھی سگریٹ نوشی نہیں کی ہے”

دوست نے مزید اصرار کرتے ہوئے کہا کہ”اگر تمہارا یہ دعویٰ سچ ہے تو کہو کہ جس بھی مومن کی بیٹی سے تم نکاح کرو گے، اسے طلاق ہو جائے گی۔”مسلسل دباؤ اور ضد کی وجہ سے ***نے بلا سوچے سمجھے یہ کہہ دیا کہ “جی ہاں، طلاق۔”یہ الفاظ کہتے وقت *** کو طلاق کے شرعی احکام کا علم نہیں تھا، اور اس کی نیت بھی طلاق دینے کی ہرگز نہیں تھی۔ مزید برآں، اس وقت اس کی عمر صرف 16 یا 17 سال تھی۔کیا ان الفاظ کی بنیاد پر مستقبل میں نکاح کے بعد طلاق واقع ہو گی؟اگر طلاق واقع ہوگی تو کیا حیلہ / طریقہ خالد اختیار کرے کہ جس سے اسکی بچت ہوجائے۔

وضاحت مطلوب ہے: سائل کا سوال کیا تعلق ہے؟ میاں بیوی کا رابطہ نمبر ارسال  کریں تاکہ ضروری معلومات لے کر جواب دیا جا سکے۔

جواب وضاحت: چونکہ یہ واقعہ میرے ساتھ ہی پیش آیا ہے، جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا ، اب میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈیپارٹمنٹ آف لاء کا طالب علم ہوں۔ ***، جو تبلیغ کے سلسلے میں بہاولپور میں موجود ہیں، جو اسی دارالافتاء سے منسلک ہیں ، انہوں نے مجھے اس نمبر پر رابطہ کرنے کی ہدایت دی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے نکاح کرنے سے طلاق واقع نہ ہوگی۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں آپ کے دوست نے جب یہ کہا کہ ” اگر تمہارا یہ دعویٰ سچ ہے تو کہو، جس بھی مومن کی بیٹی سے تم نکاح کرو گے اسے طلاق ہوجائے گی“ تو اس جملے میں آپ کے دوست نے آپ سے کوئی سوال نہیں کیا تھا بلکہ ایک جملہ بولنے کا کہا تھا جیسا کہ ”کہو“ کے لفظ سے واضح ہے۔ اس کے بعد آپ نے وہ جملہ نہیں کہا بلکہ صرف ”جی ہاں، طلاق“ کہہ دیا جس میں تعلیق طلاق کا کوئی لفظ نہیں۔ لہذا آپ کے دوست کے مذکورہ جملے سے طلاق معلق نہیں ہوئی۔

المحیط البرہانی (12/408) میں ہے:

ولو قال للناطق: عليك عهد الله إن كان لهذا عليك كذا، فقال نعم، كان يميناً؛ لأن نعم يتضمن إعادة ما في السؤال في غير الإيجابات، وقوله: عليك عهد الله ليس بإيجاب فيصير معاداً بقوله: نعم، فكأنه قال: علي عهد الله إن كان لهذا علي كذا، ولو قال هكذا كان يميناً. فإذا عرفت هذا في الناطق فكذا في الأخرس اذا أشار بنعم.

ولو كان قال للناطق: قل بالله ما لهذا عليك ألف درهم، فقال الناطق: نعم، لا يكون ذلك يمينا، لأن قوله: قل بالله، هذا أمر، وقوله: نعم في جواب الأمر لا يجعل جواباً ولا يتضمن ‌إعادة ‌ما ‌في ‌الأمر. ألا ترى أنه إذا قيل في العرف: لرجل أُدخُلْ هذه الدار، فقال: نعم لا يجعل جواباً. وإذا لم يتضمن إعادة ما في الأمر لا يصير إشارة الأخرس بنعم جوابا متضمنا إعادة ما في الأمر فلا يصير الاخرس حالفا

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

ولو قال لامرأته: ‌قولي ‌أنا ‌طالق لم تطلق حتى تقول لأنه أمر بالإنشاء.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved