- فتوی نمبر: 29-367
- تاریخ: 13 اکتوبر 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > سنت اور نفل نمازوں کا بیان
استفتاء
1.اگر کوئی شخص سنت مؤکدہ نہ پڑھے تو کیا اس پر کوئی گناہ ہوگا یا وہ شفاعت کا حقدار ہوگا؟
- کیونکہ نبی کریمﷺ نے تو صرف فرض کا حکم دیا ہے ۔
3.سعد بن ابی وقاصؓ نے سنت نہیں پڑھی؟
4.کیا اس بات کو دلیل بنا کر سنت چھوڑنے والے کو گنہگار کہنا غلط ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔سنت موکدہ کو بلا عذر چھوڑنے والا گنہگار ہوگا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم ہونے کا اندیشہ ہے۔
2۔ جس طرح آپﷺ نے فرض کا حکم دیا ہے ایسے ہی سنت کا بھی حکم دیا ہے۔
3۔ یہ بات کسی حدیث میں نہیں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ صرف فرض پڑھتے تھے سنت نہیں پڑھتے تھے؟
4۔جب یہ بات ہی درست نہیں (یعنی یہ کہ آپﷺ نے صرف فرض پڑھنے کا حکم دیا ہو سنتوں کا حکم نہ دیا ہو یا حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سنتیں نہ پڑھتے ہوں ) تو اس کو دلیل بنا کر مستقل سنت چھوڑنے والے کو گناہ گار کہنا غلط نہیں بلکہ درست ہے۔
آپﷺ کا فجر کی سنتوں کا اہتمام
صحیح بخاری (رقم الحدیث:1161) میں ہے:
عن عائشة رضي الله عنها قالت: «لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم على شيء من النوافل أشد منه تعاهدا على ركعتي الفجر»
ترجمہ:حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نفلوں میں سے کسی بھی نماز کا اتنا اہتمام نہیں فرماتے تھے جتنا فجر سے پہلے دو رکعتوں کا اہتمام فرماتے تھے۔
دن رات کی سنتوں کی فضیلت
صحیح مسلم (رقم الحدیث:728) میں ہے:
عن أم حبيبة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، أنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «ما من عبد مسلم يصلي لله كل يوم ثنتي عشرة ركعة تطوعا، غير فريضة، إلا بنى الله له بيتا في الجنة، أو إلا بني له بيت في الجنة» قالت أم حبيبة: «فما برحت أصليهن بعد» وقال عمرو: «ما برحت أصليهن بعد»، وقال النعمان مثل ذلك
ترجمہ:حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان شخص بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ہر روز فرائض کے علاوہ بارہ رکعت پڑھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے لیے جنت میں گھر بنائیں گے، یا فرمایا کہ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دیا جائے گا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں اس کے بعد سے میں مسلسل ان بارہ رکعات کو پڑھتی ہوں۔
ظہر کی سنتوں کی فضیلت
سنن ترمذی(رقم الحدیث:428) میں ہے:
عن أم حبيبة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من صلى قبل الظهر أربعا وبعدها أربعا حرمه الله على النار
ترجمہ:حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ظہر کی فرض نماز سے پہلے کی چار رکعتوں (سنت مؤکدہ) کی پابندی کرے گا، تو اللہ تعالی اس پر آگ کو حرام کر دیں گے۔
قیامت کے دن فرائض کی کمی کو سنتوں سے پورا کیا جائے گا
سنن ترمذی (رقم الحدیث:413)میں ہے:
حدثنا علي بن نصر بن علي الجهضمي قال: حدثنا سهل بن حماد قال: حدثنا همام، قال: حدثني قتادة، عن الحسن، عن حريث بن قبيصة، قال: قدمت المدينة، فقلت: اللهم يسر لي جليسا صالحا، قال فجلست إلى أبي هريرة، فقلت: إني سألت الله أن يرزقني جليسا صالحا، فحدثني بحديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لعل الله أن ينفعني به، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” إن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته، فإن صلحت فقد أفلح وأنجح، وإن فسدت فقد خاب وخسر، فإن انتقص من فريضته شيء، قال الرب عز وجل: انظروا هل لعبدي من تطوع فيكمل بها ما انتقص من الفريضة، ثم يكون سائر عمله على ذلك “
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا کہ روزِ قیامت بندے کے اعمال کے سلسلہ میں سب سے پہلے سوال نماز کے بارے میں کیا جائے گا، پس اگر نماز ٹھیک رہی تو وہ فلاح و کامیابی سے ہم کنار ہوگا، اور اگر نماز ( کا معاملہ) خراب ہوا تو وہ خاسر و ناکام ہوگا، اور اگر اس کے فرائض میں کوتاہی پائی جائے گی تو اللہ عز و جل کا ارشاد ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے نوافل ہیں، تو اس کے ذریعہ سے اس کے فرائض کی کمی پوری کردو ، پھر بقیہ اعمال کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
دن رات کی سنتوں کی تاکید
المعجم الأوسط للطبرانی (رقم الحدیث:356) میں ہے:
من طريق خالد بن يوسف السمتي، قال: نا أبي، عن أبي سفيان السعدي، قال: سمعت الحسن، عن أبي هريرة، قال: أَوْصَانِي رَسُولُ اللهِ ﷺ بِعَشْرِ رَكَعَاتٍ لَا أَدَعُهُنَّ: رَكْعَتَانِ قَبْلَ الغَدَاةِ، وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَانِ بَعْدَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَانِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَكْعَتَانِ بَعْدَ العِشَاءِ،
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ وصیت فرمائی کہ میں دس رکعت (سنت) کبھی نہ چھوڑوں، دو رکعتیں فجر سے پہلے دو رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں ظہر کے بعد اور دو رکعتیں مغرب کے بعد اور دو رکعت عشاء کے بعد ۔
صحیح ابنِ خزیمہ( رقم الحدیث 197 ) ميں ہے:
” عن عبدالله بن عمرو ابن العاص قال: قال رسول الله صلی الله عليه وسلم : من رغب عن سنتی فلیس منی”
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔
شامی(1/525) میں ہے:
ترك السنة المؤكدة قريب من الحرام يستحق حرمان الشفاعة، لقوله عليه الصلاة والسلام من ترك سنني لم ينل شفاعتي» . اهـ. وفي التحرير: إن تاركها يستوجب التضليل واللوم،. اهـ. والمراد الترك بلا عذر على سبيل الإصرار كما في شرح التحرير لابن أمير حاج ……… من أنه لو اكتفى بالغسل مرة إن اعتاده أثم، وإلا لا
وفي البحر من باب صفة الصلاة: الذي يظهر من كلام أهل المذهب أن الاثم منوط بترك الواجب أو السنة المؤكدة على الصحيح؛ لتصريحهم بأن من ترك سنن الصلوات الخمس قيل: لا يأثم والصحيح أنه يأثم
امداد الاحکام (1/606) میں ہے:
سوال: اکثر لوگ جمعہ کی فرض نماز کے بعد بغیر سنت پڑھے چلے جاتے ہیں نہ اپنے مکانوں میں جاکر پڑھتے ہیں، بازار میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں، کتنا بھی تاکید کرو نہیں سنتے نہ پند ونصیحت قبول کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے کیا وعید آتی ہے؟ شرعاً بالتفصیل بیان فرمائیں۔
جواب: یہ لوگ تارک سنت مؤکدہ ہیں اور ترک سنت مؤکدہ گاہے بلا عذر ہوجائے تو صغیرہ ہے اور اس پر مداومت کرنا کبیرہ ہے جس سے علاوہ گناہ کے حرمان شفاعت نبوی کا اندیشہ ہے۔
رجل ترك سنن الصلوة إن لم ير السنن حقا فقد كفر لانه تركها استخفافا وان رأها فالصحيح أنه يأثم لانه جاء الوعيد بالترك [عالمگيريه]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved