- فتوی نمبر: 26-274
- تاریخ: 23 جنوری 2022
- عنوانات: عبادات
استفتاء
1۔تعزیت کا شرعی طریقہ کیا ہے؟
2۔نماز جنازہ کا سلام پھیرتے ہی لوگ تعزیت کرنے لگتے ہیں جس سے دفن میں تاخیر ہوتی ہے تو کیا اس موقع پر تعزیت کرنا درست ہوگا؟
3۔تعزیت کی مدت کب تک ہے؟ اور تعزیت کتنی مرتبہ کی جائے؟ تعزیت کتنی دیر کا عمل ہے؟ اس کے لیے کتنی دیر تک بیٹھنا درست ہے؟
4۔تعزیت کیلئے آنے والے کا کھانا درست ہے؟ کھلانا درست ہے؟
5۔معزی اور معزی الیہ کون لوگ ہوں گے؟ دونوں کے احکام میں کیا فرق ہے؟
6۔رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں تعزیت اور ایصال ثواب کی عملی شکل کیا تھی؟چند واقعات اگر نقل فرمادیں تو مہربانی ہوگی۔
7۔۔آج کل معاشرہ میں تعزیت کا جو طریقہ کار اختیار کر لیا گیا ہے اور جو صورتحال بن چکی ہے آنجناب اس سے بخوبی واقف ہے(تعزیت کے لیے آنے والا کہتا ہے ’’ فاتحہ پڑھیں، یا کلام پڑھیں، یا کلام بخشیں ‘‘تو سارے ہاتھ اٹھا کر کچھ پڑھتے ہیں اور چہرے پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں۔ آنے والا اہل میت میں کسی کو مخاطب کرکے کہتا ہے ’’ امر اللہ کا، یا حکم اللہ کا، یا امرربی ‘‘تو وہ جواب میں کہتا ہے ’’ جی مان لیا، یا کہتا ہے کوئی چارہ نہیں ‘‘کچھ دیر بعد اس آنے والے کی تواضع چائے، بسکٹ، بوتل، کھانے وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ سارا دن چلتا ہے اور ہر آنے والا یہی کچھ کہتا ہے اور وہی کچھ جواب میں کہاجاتا ہے۔ ) کیا یہ صورتحال شریعت کے مزاج کے مطابق ہے؟ اگر نہیں تو شرعی مزاج کے مطابق اس میں کیا تبدیلی کی جائے تاکہ یہ عمل کلی طور پر شرعی ہو اور دوسروں کے لئے قابل عمل نمونہ ہو۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) ۔تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اہل میت کو تسلی دی جائے اور ان کے لیے دُعائیہ کلمات کہے جائیں۔ دُعائیہ کلمات میں یہ کلمات کہنا مسنون ہیں:أعظم الله أجرك و أحسن عزائك و غفر لميتك.
(2)بہتر یہ ہے کہ تعزیت تدفین کے بعد کی جائے البتہ اگر اہل میت زیادہ جزع فزع کر رہے ہوں تو تدفین سے پہلے بھی جائز ہے۔تاہم اس کی وجہ سےتد فین میں تاخیر کرنا درست نہیں ۔
(3) شریعت میں تعزیت کا وقت موت کے وقت سے صرف تین دن تک ہے اس کے بعد تعزیت مکروہ ہے ۔ تعزیت ایک ہی دفعہ کی جائے ۔اور تعزیت کے لیے اتنی دیر بیٹھے کہ اہل میت پرغم ہلکا ہوجائے ۔
(4)تعزیت کے لیے آنے والوں کا کھانا درست نہیں البتہ اس کا میت کے گھر والوں کو کھلانا درست نہیں ۔
(5)میت کے قریبی رشتہ دار معزی الیہ ہوں گے اور ان کے علاوہ لو گ معزی ہوں گے ، ان دونوں کے احکام میں فرق کا ایسا جواب دینا جس میں سب احکام آجائیں مشکل ہے لہٰذا کوئی خاص بات پوچھنی ہو تو اسے ذکر کریں ۔
(6) اس سوال کے جواب کی ضرورت نہیں۔
(7) مذکورہ طریقے میں "فاتحہ پڑھیں "وغیر جملے کہنا درست نہیں اسی طرح ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا درست نہیں نیز آنے والے کی تواضع کرنا بھی درست نہیں باقی ” امر اللہ کا”یا”حکم اللہ کا” کہنا درست ہے۔
(1)فتاویٰ شامی (3/137) میں ہے:
وبتعزية أهله وترغيبهم في الصبر. في الشامية: وله: (وبتعزية أهله) أي تصبيرهم والدعاء لهم به….. قال في شرح المنية: وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لا يفتن، لقوله عليه الصلاة والسلام: من عزى أخاه بمصيبة كساه الله من حلل الكرامة يوم القيامة …. والتعزية أن يقول: أعظم الله أجرك، وأحسن عزاءك، وغفر لميتك اه
(2+3)حاشيۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح (ص: 411) میں ہے:
قوله ( ولا ينبغي لمن عزى مرة أن يعزي أخرى ) وتكره عند القبر وهي بعد الدفن أفضل لأنهم قبله مشغولون بالتجهيز ووحشتهم بعد الدفن أكثر إلا إذا رأى منهم جزعا شديدا فيقدمها لتسكينهم
(3)فتاویٰ ہندیہ(350/1) میں ہے:
ووقتها(أي التعزية:از ناقل) من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها.
(4)شامی(3/138)میں ہے:
وباتخاذ طعام لهم قوله(وباتخاذ طعام لهم)قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئةطعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم لقوله اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم
(5)فتاویٰ ہندیہ (1/ 167) میں ہے:
ويستحب أن يعم بالتعزية جميع أقارب الميت الكبار والصغار والرجال والنساء إلا أن يكون امرأة شابة فلا يعزيها إلا محارمها كذا في السراج الوهاج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved