- فتوی نمبر: 28-196
- تاریخ: 17 جنوری 2013
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
ایک عالم دین بیان کر رہے تھے جس کا مفہوم یہ ہے کہ:
’’قیامت کے دن ایک سنت ایک فرض کے برابر ،اور ستر نفل ایک فرض کے برابر ہوں گے،تو عصر اور عشاءکی پہلی سنتیں لوگ ادا نہیں کرتے اور رات کو تہجد پڑھتے ہیں حالانکہ وہ سنتیں ہیں اور یہ نفل، اس طرح انہوں نے سنتیں چھوڑ کر نفل ادا کیے‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ:
1۔کیا عصر کی سنتیں تہجد کی نماز سے زیادہ افضل ہیں؟
2۔جو سنتیں نہیں پڑھتا اس کی تہجد کا کوئی فائدہ نہیں؟
3۔کیا ان عالم صاحب کی مذکورہ بات درست ہے؟
ان باتوں کی وضاحت کردیں۔
استفتاء
1۔عصر کی سنتیں تہجد کی نماز سے افضل نہیں بلکہ تہجد کی نماز عصر کی سنتوں سے افضل ہے۔
2۔یہ بات درست نہیں ،بلکہ تہجد پڑھنے کااپنا فائدہ ہے،اور سنتیں پڑھنے کا اپنا فائدہ ہے ۔
3۔ ہمیں کسی معتبر کتاب میں یہ بات نہیں ملی کی قیامت میں ایک سنت ایک فرض کے برابر ہوگی اور ستر نفل ایک فرض کے برابر ہوں گے ،تاہم مذکورہ عالم دین اس کا حوالہ بتادیں تو مزید غور کیا جاسکتا ہے۔نیز یہ بات بھی درست نہیں کہ عصر اور عشاء سے پہلے کے نوافل سنتیں ہیں اور تہجد صرف نفل ہے، بلکہ دونوں ہی نفل ہیں اور دونوں ہی سنتیں ہیں ،بلکہ آپﷺ نے عصر اور عشاء سے پہلے کی سنتوں کا اتنا اہتمام نہیں فرمایا جتنا تہجد کا فرمایا۔
مرقاۃ المفاتیح(رقم الحدیث:2039) میں ہے:
وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: ” «أفضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم، وأفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل» ” رواه مسلم
قوله: ” وأفضل الصلاة بعد الفريضة ” أي توابعها من السنن المؤكدة، ويدخل في الفريضة الوتر لأنه فرض عملي واجب علمي ” صلاة الليل ” أو يقال صلاة الليل أفضل من الرواتب من حيثية المشقة والكلفة والبعد عن الرياء والسمعة، أو بالنسبة إليه – صلى الله عليه وسلم – على القول باستمرار الوجوب لديه، أو لأنه كان فريضة ثم صار سنة بالنسخ، وقيل: هذه السنة أفضل السنن، والله أعلم، وقال النووي: الحديث حجة أبي إسحاق المروزي من أصحابنا ومن وافقه على أن صلاة الليل أفضل من السنن الرواتب لأنها تشبه الفرائض، وقال أكثر العلماء: الرواتب أصل، والأول أقوى وأوفق لنص هذا الحديث.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved