• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تکبیرتحریمہ کے وقت ہاتھ کہاں تک اٹھانے چاہیں؟

  • فتوی نمبر: 17-354
  • تاریخ: 17 مئی 2024

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے

(1) ہاتھ کانوں کو لگانا درست ہے کہ نہیں؟

(2) ہاتھ کندھوں تک اٹھانا درست ہے کہ نہیں؟

(3) ہاتھ گردن تک اٹھانا درست ہے یا نہیں؟

ان تینوں طریقوں میں کونسا عمل درست ہے ؟اور فتوی کس عمل  پر ہے؟ جبکہ ایک  غیر مقلد نے کہا ہے کہ اگر تکبیر تحریمہ کہتے وقت کانوں کو ہاتھ لگا دیئے تو نماز مکروہ ہوجاتی ہے ؟رہنمائی فرمائیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کہاں تک اٹھانے چاہئیں ؟اس بارے میں مختلف روایات ہیں بعض میں کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے اور بعض میں کانوں تک اٹھانے کا ذکر ہے اور بعض میں ہے کہ اتنا اٹھائے کہ انگوٹھے کانوں کے برابر ہوجائیں۔ لیکن یہ اختلاف ایسا نہیں کہ تینوں صورتوں پر بیک وقت عمل نہ ہو سکتا  ہو چناچہ اگر ہاتھوں کے انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر ہو ں تو تینوں طرح کی احادیث پر عمل ہوجائے گا اور وہ اس طرح کہ اس صورت  میں ہتھیلیاں کندھوں کے برابر ہوں گی  اور دونوں انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر ہوں گے اور انگلیاں کانوں کے اوپر کے حصے کے برابر ہوں گی۔ہماری تحقیق میں یہی صورت درست ہے اور فتوی اسی پر ہے ۔ نیزیہ بات کہ اگر” تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے ہاتھ کانوں کولگا دیئے تو نماز مکروہ ہوجاتی ہے "بے بنیاد ہےاور  اس کی کوئی قابل اعتبار دلیل نہیں ۔بلکہ اس بات کا اطمنان کرنے کے لیے کہ   انگوٹھے کانوں کی لو کے  پورے طور پر برابر ہو جائیں   انگوٹھوں کو کانوں کی لو کے ساتھ ہلکا سا لگانا مستحب اور بہتر ہے۔

عن ابن عمر قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام للصلاة رفع يديه حتى تكونا حذو منكبيه، ثم كبر،رواه مسلم(168/1)

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ وہ آپ کے کندھوں کے مقابل ہو جاتے ۔

عن وائل بن حجر ، أنه أبصر النبي صلى الله عليه وسلم حين قام إلى الصلاة رفع يديه حتى كانتا بحيال منكبيه، وحاذى بإبهاميه أذنيه، ثم كبر.ابوداؤد (1/114)

ترجمہ:حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ ﷺنماز کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ وہ آپ کے دونوں کندھوں کے برابر ہوگئے اور آپ نے اپنے انگوٹھوں کو اپنے کانوں کے مقابل کیا پھر تکبیر کہی ۔

عن مالك بن الحويرث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا كبر رفع يديه حتى يحاذي بهما أذنيه،وفى رواية: حتى يحاذى بهما فروع أذنيه ،رواه مسلم (1/168)

ترجمہ: حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب( تحریمہ کے لئے) تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ ان کو اپنے کانوں کے برابر کرلیتے،اور ایک روایت میں ہے "کانوں کے اوپری حصے کے برابر کر لیتے ۔

اعلاءالسنن(180/2)میں ہے:

قوله:”عن مالك رضى الله تعالي عنه”برواية مسلم الخ.قال المؤلف: معناه أن يحاذى بإبهاميه شحمتى أذنيه وبرؤس اصابعه فروع أذنيه، وبه يتفق اللفظان.وقد ذهب إليه صاحب فتح القدير حيث قال تحت قول الهداية:”حتى يحاذى بإبهاميه شحمتى أذنيه”مانصه”وبرؤوس اصابعه فروع أذنيه” .وما ورد فى حديث سالم الآتى قريبا:” حتى تكونا بحذو منكبيه” فتراد باليدين فيه الكفان،فتتفق الروايات.و في فتح القدير: ولا معارضة فإن محاذاة الشحمتين بالابهامين تسوغ حكاية محاذاة اليدين بالمنكبين والأذنين، لأن طرف الكف مع الرسغ يحاذى المنكب او يقاربه ،والكف نفسه يحاذى الأذن ،واليد تقال على الكف الى أعلاها،فالذى نص على محاذاة الإبهامين بالشحمتين وفق فى التحقيق بين الروايتين،فوجب اعتباره”اھ۔.

 

بحرالرائق (1/532)میں ہے:

(قوله ورفع يديه حذاء أذنيه). . . . . . . والمراد بالمحاذاة أن يمس بإبهاميه شحمتي أذنيه ليتيقن بمحاذاة يديه بأذنيه كما ذكره في النقاية

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved