- فتوی نمبر: 8-135
- تاریخ: 06 جنوری 2016
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام > عبادات > منتقل شدہ فی عبادات
استفتاء
اگر تقسیم جائیداد ہو جائے تو تمام ورثاء صاحب نصاب بن جائیں گے، اس قدر جائیداد کی ملکیت ہونے کی وجہ سے (اس حال میں کہ کسی اور نصاب کی ملکیت نہ ہو تو) فی الحال (جبکہ تقسیم نہیں ہوئی) ان تمام ورثاء کے لیے قربانی، صدقہ فطر، ادائیگی زکوٰة اور اخذ زکوٰة کا کیا حکم ہو گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب تک وراثت میں ملی ہوئی جائیداد پر تقسیم ہونے کے بعد اس میں قبضہ پر قدرت و اختیار والی بات نہیں آتی، اس وقت تک اس جائیداد کی وجہ سے ورثاء صاحب نصاب نہ ہوں گے۔ اور جب صاحبِ نصاب نہیں تو اس جائیداد کی وجہ سے نہ ان پر قربانی و صدقہ فطر ہے، اور نہ زکوٰة ہے۔ اور جبکہ یہ ورثاء کسی اور نصاب کے بھی مالک نہیں تو یہ ورثاء زکوٰة بھی لے سکیں گے۔ کیونکہ وراثت میں ملنے والا مال قبضے سے پہلے دین ضعیف ہے۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:
و أما الدين الضعيف فما وجب له لا بدلاً عن شيء سواء وجب له بغير صنعه كالميراث أو بصنعه كالوصية أو وجب بدلاً عما ليس بمال كالمهر و بدل الخلع و الصلح عن القصاص و بدل الكتابة و لا زكاة فيه ما لم يقبض كله و يحول عليه الحول بعد القبض. (2/ 90)
اور اگر اس کو دین متوسط میں بھی شمار کریں (جیسا کہ شامی میں ہے: و مثله ما لو ورث ديناً علی رجل أي مثل الدين المتوسط. 3/ 283) تو پھر بھی دین متوسط کا حکم ایک مفتیٰ بہ روایت کے مطابق دین ضعیف کا ہی ہے۔ اور دین ضعیف کا حکم یہ ہے کہ قبضہ سے پہلے وہ نصاب نہیں بنتا۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:
قلت: لكن قال في البدائع: أن رواية ابن سماعة أنه لا زكاة فيه (أي في دين المتوسط) حتی يقبض المائتين و يحول الحول من وقت القبض هي الأصح من الروايتين عن أبي حنيفة رحمه الله اه و مثله في غاية البيان: و عليه فحكمه حكم الدين الضعيف الآتي.
اور جب دین ضعیف وجوب زکوٰة کے حق میں قبضہ سے پہلے نصاب نہیں بنتا، تو وہ صدقہ فطر، قربانی اور اخذ زکوٰة کے حق میں بھی نصاب شمار نہ ہو گا۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:
قلت: و لعل وجه الأول كون دين المهر ديناً ضعيفاً لأنه ليس بدل مال. و بهذا لا تجب زكاته حتی يقبض و يحول عليه حول جديد، فهو قبل القبض لم ينعقد نصاباً في حق الوجوب، فكذا في حق جواز الأخذ. (الدر المحتار: 3/ 341) فقط و الله تعالی أعلم
عالمگیری میں ہے:
و كذا لو كان له مال غائب لا يصل إليه في أيامه. (5/ 292)
و المرأة تعتبر مؤسرة بالمهر إذا كان الزوج ملياً عندهما و علی قول أبي حنيفة رحمه الله لا تعتبر مؤسرة بذلك، قيل هذا الاختلاف بينهم في المعجل الذي يقال له بالفارسية (دست بيمان) و أما المؤجل الذي سمي بالفارسية (كابين) فالمرأة لا تعتبر مؤسرة بذلك بالإجماع. (5/ 292)
الف: جن ورثاء کو تقسیم وراثت پر قدرت و اختیار نہ تھا، تو ان ورثاء پر اس وراثت کی وجہ سے نہ تو زکوٰة آئے گی، اور نہ قربانی و صدقہ فطر آئے گا۔ اور جبکہ یہ ورثاء کسی اور نصاب کے بھی مالک نہیں، تو ان کو زکوٰة بھی لگ جائے گی۔
ب: اور جن ورثاء کو تقسیم وراثت پر قدرت و اختیار تھا، لیکن پھر بھی انہوں نے وراثت تقسیم نہیں کی، تو ان کے بارے میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:
i۔ وراثت میں اگر قابل زکوٰة اثاثہ جات ہوں (مثلاً سونا، چاندی، روپیہ اور مالِ تجارت) اور یہ اثاثہ جات نصاب کے بقدر بھی ہوں، تو ان ورثاء پر ان اثاثہ جات کی زکوٰة آئے گی۔ اور جن ورثاء پر زکوٰة آئے گی، ان پر قربانی و صدقہ فطر بھی آئے گا، اور وہ زکوٰة بھی نہ لے سکیں گے۔
ii۔ اور اگر وراثت میں قابل زکوٰة اثاثہ جات نہ ہوں، یا ہوں لیکن نصاب کے بقدر نہ ہوں، جبکہ دیگر اثاثہ جات اکیلے یا قابل زکوٰة و دیگر اثاثہ جات مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہوں، اور یہ اثاثہ جات بنیادی ضروریات سے زائد ہوں، تو ان ورثاء پر قربانی، صدقہ فطر آئے گا اور یہ لوگ زکوٰة کے مستحق نہ ہوں گے، اگرچہ ان پر زکوٰة بھی واجب نہ ہو گی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved