• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تراویح میں قعدہ نہیں کیا اور تیسری رکعت شروع کردی

استفتاء

السلام علیکم حضرت مفتی صاحب  !  اس مسئلہ میں راہنمائی فرمادیں  کہ اگر (1)   تراویح کی دوسری رکعت میں قعدہ کی بجائے بھول کر تیسری رکعت شروع کر دی اور تین رکعت مکمل کر کے  سجدہ سہو  کیا تو اس کا کیا حکم ہے ؟

(2) تراویح کی دوسری رکعت میں قعدہ کی بجائے بھول کر تیسری رکعت شروع کر دی اور پھر چار رکعتیں مکمل کر کے سجدہ سہو کر لیا تو اس کا کیا حکم ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ صورت میں تینوں رکعتیں نہیں ہوئیں  صبح صادق سے پہلے دو رکعتوں کو لوٹانا لازم ہے اور ان تینوں رکعتوں میں جو قرآن پڑھاگیا ہے اس کو  اگلے دن کی تراویح میں دوبارہ پڑھ لیا جائے تاکہ تراویح میں پڑھا جانے والا قرآن  نامکمل نہ رہ جائے۔

(2)مذکورہ صورت میں دوسری دو   رکعت تراویح شمار ہوں گی اور پہلی دو رکعت نفل ۔ اس لیے  بہتر یہ ہے کہ پہلی دو رکعت میں  پڑھا گیا قرآن   دوبارہ پڑھ لیں ۔ اور اگر اس قراءت کی مقدار   بہت زیادہ  ہو اور دوبارہ پڑھنے میں مقتدیوں پر بوجھ ہو   تو  دوبارہ نہ پڑھنے کی بھی  گنجائش ہے ۔

فتاوی تاتار خانیہ (1/483) میں ہے :

“وإذا صلى ثلاثا بتسليمة واحدةإن قعد على رأس الركعتين يجزيه  عن تسليمة واحدة …وإن لم يقعدعلى رأس الثانية ساهياً أو عامداً لا شك أن  صلاته باطلة… وفي الخانية هو الصحيح.”

فتاو ی عالمگیری  (1/ 118)میں ہے :

«وإذا ‌فسد ‌الشفع وقد قرأ فيه لا يعتد بما قرأ فيه ويعيد القراءة ليحصل له الختم في الصلاة الجائزة وقال بعضهم: يعتد بها، كذا في الجوهرة النيرة»

حلبی کبیر باب التراویح ( ص 408) میں ہے :

وإن صلی أربع رکعات بتسليمة واحدة والحال أنه لم یقعد علی رکعتین منها قدر التشهد تجزئ الأربع عن تسلیمة واحدة أي عن رکعتین عند أبي حنیفة وأبي یوسف وهو المختار اختاره الفقيه أبو جعفر وأبوبکر محمد بن الفضل قال قاضیخان هو الصحیح لأن القعدة علی رأس الثانية فرض في التطوع فإذا تركها کان ینبغي أن تفسد صلاته أصلاً کما هوقول محمد وزفر وهو القیاس وإنما جاز علی قول أبي حنیفة وأبي یوسف استحسانًا فاخذنا بالقیاس في فساد الشفع الأول وبالاستحسان في حق بقاء التحریمة وإذا بقیت صح شروعه في الشفع الثاني وقدا أتمه بالقعدة فجاز عن تسلیمة واحدة، وقال الفقية أبو اللیث: تنوب عن تسلیمتین والصحیح الأول .

فتاوي تاتارخانیہ(2/330) میں ہے :

ولو صليَّ أربعًا بتسلیمة واحدة  ولم یقعد علی رأس الرکعتین ففي القیاس وهو قول محمد، وزفر وإحدیٰ الروایتین عن أبي حنیفة أنه تفسد صلاته ویلزمه  قضاء هذه الترویحة،  وفي الاستحسان وهو قول أبي حنيفة في المشهور وقول أبي یوسف یجوز، لکن عن تسليمة واحدة أو عن تسلیمتین؟ قال بعضهم عن تسلیمتین وبه أخذ الشیخ أبو اللیث وفي الخانية: وکذا لو صلی الأربع قبل الظهر  ولم یقعد علی رأس الرکعتین جاز استحسانًا، وکان الشیخ أبو جعفر یقول: یجزيه عن تسلیمة واحدة وفي الخانية:هو الصحیح وبه کان یفتی الشیخ الإمام أبوبکر محمد بن الفضل قال القاضي الإمام أبو علی النسفي قول الفقيه أبي جعفر والشیخ الإمام أبي بکر أقرب إلی الاحتیاط وکان الأخذ به أولیٰ وعليه الفتوی

مسائل بہشتی زیور (1/272) میں ہے :

مسئلہ: اگر کسی نے تراویح کی دوسری رکعت میں قعدہ نہیں کیا اور تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا تو اگر اس کو قیام میں یاد آگیا یعنی تیسری رکعت کے سجدہ کرنے سے پہلے پہلے یاد آگیا تو چاہیے کہ لوٹے اور قعدہ کرے اور سجدہ سہو بھی کرے۔ اور اگر تیسری رکعت کا سجدہ کر لینے کے بعد یاد آیا تو ایک رکعت اور پڑھ کر سجدہ سہو کر کے نماز سے فارغ ہو اس صورت میں اس کی دو رکعتیں تراویح شمار ہوں گی اور دورکعتیں نفل ہوں گی۔ جہاں تک قرأت کا تعلق ہے تو بہتر یہ ہے کہ پہلی دو رکعتوں میں کی گئی قرأت کا اعادہ کر لے لیکن اگر وہ بہت زیادہ مقدار ہو کہ مقتدیوں پر گراں گزرے گی تو اس قول پر عمل کیا جا سکتا ہے کہ پڑھی ہوئی پوری مقدار معتبر ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved