- فتوی نمبر: 33-51
- تاریخ: 10 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > خلع و تنسیخ نکاح
استفتاء
میری شادی کو 18 سال ہو گئے ہیں، جب سے شادی ہوئی مجھے اس آدمی کا ساتھ دیتے ہوئے اتنے سال گزر گئے ہیں نہ تو اس شخص نے صحیح طریقے سے کمایا اور نہ اس نے گھر کی کوئی ذمہ داری اٹھائی، میرے چار بچے ہیں اس نے نہ بیوی کو سمجھا نہ بچوں کو بس خود ہی کمایا مجھے سلائی آتی تھی لہذا مجبوری میں مجھے مزدوری کرنی پڑی جبکہ اس کو جگہ جگہ سے مانگنے کی عادت تھی اس نے مجھے کتنی دفعہ مارا بھی ہے اور پچھلے سال رمضان سے دو تین دن قبل مجھے اتنا مارا کہ میرا منہ بگاڑ دیا اور سب نے اس کو اتنا سمجھایا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ کراچی چلا گیا میرے بچوں کو روزی کمانے کے لیے بیٹھنا پڑا میری پوری زندگی ہو گئی ہے اس کے ساتھ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس آدمی کا کوئی ایمان نہیں ہے جھوٹا کلمہ پڑھ لیتا ہے اور جھوٹا قرآن اٹھا لیتا ہے اس کو چاہے اللہ کا واسطہ دو، قرآن کا واسطہ دو یا بچوں کا واسطہ دو یہ وہی بات بولتا ہے یہ اسلام سے بھی خارج ہو چکا ہے میں نے بہت سوچ سمجھ کر عدالت میں خلع کا کیس دائر کیا لیکن یہ اس میں پیشی کے لیے نہیں آیا اور کیس ختم ہو گیا اور عدالت نے خلع کا فیصلہ کر دیا میں نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا ہے نہ تو یہ طلاق دے رہا ہے اور نہ ہی خلع کے پیپر سائن کرتا ہے یہ کہتا ہے کہ نہ تو طلاق دوں گا اور نہ ہی خلع کے پیپر سائن کروں گا مذکورہ صورت میں بتائیے کہ عدالتی خلع معتبر ہے کہ نہیں؟ یہ میری ساری صورتحال ہے، مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں؟ میں بہت پریشان ہوں ۔
شوہر کا بیان:
پچھلے سال رمضان سے قبل حیدرآباد میں ہماری لڑائی ہوئی تھی لیکن میں نے مارا نہیں تھا صرف ہلکا سا ہاتھ لگا تھا اس کے بعد میں کراچی آکر بیمار ہو گیا اور میری بیماری چھ سات مہینے رہی جس دوران میں نے بیوی کو خرچہ نہیں دیا بوجہ بیمار ہونے کے اس بیماری سے پہلے میں اپنی بیوی کو اور بچوں کو خرچہ دیتا تھا اور حالات ٹھیک تھے اگرچہ میری آمدنی کم تھی ۔
بیوی کا بیان :
یہ استفتاء میرا ہی ہے اور میں اس کی تصدیق کرتی ہوں اور میرا شوہر صرف 4/1 خرچہ دیتا تھا باقی میں خود کما کر لاتی تھی۔ اسی طرح اس نے میری کچھ پردے کی باتیں بھرے مجمع میں متعدد بار لوگوں کے سامنے ظاہر کی ہیں۔
بڑے بیٹے کا بیان :
ابو نے امی کو بہت مارا تھا بہت مارا تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر بیوی کا بیان حقیقت پر مبنی ہے یعنی شوہر نے واقعتا ً بیوی کو اتنا مارا تھا کہ اس کا منہ بگاڑ دیا تھا تو مذکورہ خلع شرعاً معتبر ہے اور اس کی رو سے سائلہ کا نکاح اپنے شوہر سے ختم ہو گیا ہے لیکن اگر عورت مار پٹائی والی بات میں جھوٹ بول رہی ہے تو یہ خلع شرعا معتبر نہیں ہے اور بیوی کا نکاح شرعاً ختم نہیں ہوا ۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں عورت نے عدالت سے نکاح ختم کروانے کے لیے جو دعوی دائر کیا تھا ان میں جو وجوہات مذکور ہیں ان میں شوہر کا عورت پر جسمانی تشدد کرنا بھی مذکور ہے اور جسمانی تشدد فقہائے مالکیہ کے قول کے مطابق فسخِ نکاح کی بنیاد بن سکتا ہے اور فقہائے حنفیہ نے ضرورت کے وقت مالکیہ کے قول کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے لہذا اس قول کے مطابق خلع کا مذکورہ فیصلہ بطور فسخ نکاح کے شرعا درست ہے ۔
نوٹ: مذکورہ صورت میں اگرچہ عدالت نے خلع کا طریقہ اپنایا ہے اور مدعیہ کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کی ہے اور یکطرفہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہوتی مگر چونکہ مذکورہ صورت میں تنسیخ نکاح کی معتبر بنیاد موجود ہے یعنی بیوی پر شوہر کا جسمانی تشدد کرنا اور عدالتی کاغذات میں بھی جسمانی تشدد کا ذکر موجود ہے ۔جیسا کہ فیصلے کی مندجہ ذیل عبارت میں ہے:
"About six months ago, the defendant came home in intoxicant condition and in an angry mood and demanded money. On refusal, he started beating the plaintiff mercilessly and left the house”.
لہذا عدالتی خلع شرعا مؤثر و معتبر سمجھا جائے گا۔
مواہب الجلیل شرح مختصر خلیل (5/228)میں ہے:
(ولها التطليق بالضرر) ش:قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب: من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وإيثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤلما.
شرح الكبير للدردير مع حاشیۃ الدسوقی (2/345) میں ہے:
(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرها…..
فتاویٰ عثمانی (2/462) میں ہے:
عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہوگا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہوگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved