- فتوی نمبر: 30-53
- تاریخ: 20 جولائی 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > سجدہ سہو کا بیان
استفتاء
(1)اگر کوئی بندہ تشہد پڑھتے ہوئے کوئی لفظ دوبارہ پڑھ لے مطلب کہ اعادہ کرلے کسی لفظ کا تو کیا اس سے واجب کا تکرار ہوگا یا نہیں؟
(2) میں نے “بہار شریعت” میں پڑھا ہے کہ تشہد کا ہر لفظ واجب ہے اگر کوئی حصہ بھی رہ گیا تو سجدہ سہو واجب ہوگا تو جب کسی حرف کے پڑھنے میں چھوٹ جانے سے ترک واجب ہوسکتا ہے تو اعادہ کرنے سے تکرار واجب کیوں نہ ہوگا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)تشہد کے ایک دو لفظوں کو دوبارہ پڑھنے سے واجب کا تکرار نہیں ہوگا۔
(2)باقی رہا بہار شریعت میں مذکورہ مسئلے کا تعلق کہ اگر ایک لفظ بھی چھوٹ جائے تو سجدہ سہو واجب ہوگا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مکمل تشہد پڑھنا واجب ہے لہذا جب کچھ حصہ چھوڑیں گے تو تشہد پورا نہ ہوگا جب تشہد مکمل ادا نہ ہوا تو واجب بھی ادا نہ ہوا ،لہذا واجب مکمل نہ ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوگا لیکن چونکہ تشہد کُل واجب ہے اس لیے جب تک کل کا اعادہ نہ کریں اس وقت تک واجب کا تکرار نہ ہوگا۔
آسان الفاظ میں ایسے سمجھیں کہ ترک واجب میں بعض کا چھوڑنا کل کے چھوڑنے کے مترادف ہے لیکن تکرار میں بعض کا تکرار کل کے تکرار کی طرح نہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ قعدہ اولیٰ میں بعض تشہد کا اعادہ اگر تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے بقدر کیا جائے تو اس سے سجدہ سہو لازم ہوگا لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ تکرار واجب ہو گیا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قعدہ اولیٰ میں تشہد کے فورا بعد قیام کے لیے اٹھنا واجب ہے اور تین مرتبہ سبحان اللہ کے بقدر تشہد کے اعادہ کی صورت میں قیام کی طرف اٹھنے میں تاخیر ہوگی جس کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوگا۔
احسن الفتاویٰ (4/29) میں ہے:
سوال: اگر قعدہ اولیٰ میں پورا تشہد یا کچھ حصہ دوبارہ پڑھ لیا تو اس کا کیا حکم ہے، سجدہ سہو واجب ہے یا نہیں؟
جواب: قعدہ اولیٰ میں تکرار تشہد سے فرض قیام الی الثالثۃ میں تاخیر لازم آتی ہے اس لیے بصورت عمد نماز واجب الاعادۃ ہے اور بصورت سہو سجدہ سہو لازم ہوگا اگر تاخیر بقدرِ رکن ہو یعنی بقدر تین بار سبحان اللہ ربی الاعلیٰ 24 حروف مقرؤ ہو اس سے کم تکرار پر سجدہ سہو نہیں۔
قال ابن نجيم رحمه الله تعالى لو كرر التشهد في القعدة الاولى فعليه السهو لتأخير القيام
احسن الفتاویٰ(4/48) میں ہے:
سوال: اگر تشہد سے کچھ حصہ رہ جائے تو سجدہ سہو واجب ہے یا نہیں؟
جواب: تشہد پورا واجب ہے اس سے میں سے ایک لفظ بھی رہ گیا تو سجدہ سہو واجب ہے۔
قال في الدر المختار في واجبات الصلوة: (والتشهدان) ويسجد للسهو بترك بعضه ككله(قوله والتشهدان) أي تشهد القعدة الأولى وتشهد الأخيرة والتشهد المروي عن ابن مسعود لا يجب بل هو أفضل من المروي عن ابن عباس وغيره خلافا لما بحثه في البحر كما سيأتي في الفصل الآتي (قوله بترك بعضه ككله) قال في البحر: من باب سجود السهو فإنه يجب سجود السهو بتركه ولو قليلا في ظاهر الرواية لأنه ذكر واحد منظوم، فترك بعضه كترك كله
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved