- فتوی نمبر: 18-396
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ادارہ ’’طوبی فاؤنڈیشن سکول ‘‘کے نام سے گذشتہ چند سالوں سے قائم کیا ہوا ہے جس کا مقصد بچوں کی دینی نقطہ نظر سے تعلیم و تربیت کرنا ہے بلڈنگ ذاتی ہے لیکن علاقہ چونکہ اکثر کمزور مالی حیثیت کے لوگوں کا ہے اس لیے اکثر لوگ فیس ادا نہیں کرسکتے اس صورتحال میں ادارہ کو چلانا کافی مشکل ہے جب کہ ادارے میں حفظ وناظرہ کے ساتھ ساتھ سکول کی بھی مڈل تک تعلیم دی جارہی ہے علما ءسے مشاورت میں یہ بات سامنے آئی کہ ادارے کو بند کرنے کے بجائے علماء پر مشتمل کفالت کمیٹی بنائی جائے جو مستحق افراد کو زکوۃ کی مد سے فیس ادا کرنے کی سہولت فراہم کرے اور حتی الوسعت ان کی ضروریات پوری کرے. (1)پوچھنا یہ ہے کہ شرعی طور سے طلباء جن کے سرپرست مستحق زکوٰۃ ہوں ان کی فیس زکوٰۃ فنڈ سے ادا کرنا درست ہے اور اس کی شرائط کیا ہوں گی.(2) فیس اگرزکوۃ کی مد میں سےادا کرنی ہے تو فیس کا معیار کیا ہوگا ؟کیونکہ اگر تمام تعلیمی اخراجات کو شامل کیا جائے تو فیس تقریبا بارہ سو بنتی ہے جبکہ اکثر لوگ تو 700/ 600ہی ادا کرتے ہیں تومستحقین زکوۃ کےلیے فیس کس حساب سے مقرر کی جائے جو زکوۃ کی مد میں سے ادا ہوسکے۔
- مستحق والدین اگر تحریری درخواست اجازت دیں کہ میرے بچے کے تعلیمی اخراجات زکوٰۃ فنڈ سے پورے کیے جائیں تو کیا انہیں مال زکوٰۃ کا قابض و مالک بنانا ضروری ہے؟
- فیس ماہانہ اعتبار سے زکوٰۃ فنڈ سے لی جائے یا سالانہ فیس اکٹھی بھی لی جاسکتی ہے؟
- مستحقین زکوۃ کو معلوم کرنے کے لیے شرعاکن کن چیزوں کو دیکھنا ضروری ہے کہ وہ مستحق زکوۃ سمجھا جائے؟
وضاحت مطلوب ہے:
- ’’طوبیٰ فاونڈیشن سکول ‘‘کسی کا ذاتی ادارہ ہے؟
2۔حاصل ہونے والی فیس ادارے کےمالکان کی ذاتی ملکیت سمجھی جاتی ہے یا اس کی کچھ اورنوعیت ہے؟
جواب وضاحت:1۔ذاتی ادارہ ہے۔
2۔حاصل ہونے والی فیس ادارے کےمالکان کی ملکیت ہوتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ جو طلباء نابالغ ہوں اوران کےوالد مستحق زکوۃ ہوں ان کی فیس زکوۃ فنڈ سے ادا کرنا جائز ہے اور اس کی شرائط یہ ہیں کہ ان طلباء کے والد کو فیس کےبقدر زکوۃ کی رقم زکوۃ کی نیت سے دے دی جائے ،چاہے نام زکوۃ کا نہ لیا جائے اور پھر ان سے اپنی فیس لے لی جائے۔
نوٹ:اگر طلباء بالغ ہوں تو خود ان طلباء کا مستحق زکوۃ ہونا ضروری ہے۔
2۔ جومعیار دیگر طلباء کے لئے ہے وہی معیار مستحق طلبہ کے لئے ہونا چاہیے۔
3۔ مستحق والد اگر اسکول کی انتظامیہ کو تحریری وکالت نامہ دے کہ’’ میں فلاں بن فلاں اسکول کے ناظم فلاں بن فلاں کو وکیل بناتا ہوں کہ وہ میرے لئے ’’طوبیٰ فاؤنڈیشن‘‘کے زکوٰۃ فنڈ سے فیس کےبقدرزکوۃوصول کرے اور پھر میری طرف سے میرے بچے /بچی کی ماہانہ فیس میں اسے اس کو ادا کرے ‘‘ تو ایسی صورت میں مستحق والد کو مال زکوٰۃ کا قابض ومالک بنانا ضروری نہیں۔
نوٹ:جو وکالت نامہ تیار کیا جائے اسے دارالافتاء سے چیک کروا لیا جائے۔
4۔ اسکول میں ماہانہ فیس کا نظام ہوتوماہانہ فیس لی جائے اور اگر سالانہ کا نظام ہو تو سالانہ فیس لی جائے۔
5۔مستحق زکوۃ کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کو دیکھنا ضروری ہے:
(1)مسلمان ہو(2) سیدیاہاشمی نہ ہو (3)اس کی ملکیت میں اس کی بنیادی ضروریات کے علاوہ اور اگر مقروض ہے تو قرض کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر کوئی چیز نہ ہوخواہ وہ سونے چاندی کی شکل میں ہو یا روپے پیسے کی شکل میں ہو یا مال تجارت کی شکل میں ہو یا ضرورت سے زائد سامان کی شکل میں ہو۔
نوٹ :اسکول کی انتظامیہ لوگوں سے زکوۃ اکٹھی کرنے کی اپیل نہ کرے ،کیونکہ اپیل کرنے میں انتظامیہ کا اپنا مفاد ہے کہ بالآخر زکوۃ کی رقم فیس کی شکل میں انتظامیہ کی ذاتی ملکیت میں آئے گی،تاہم مخیر حضرات کومتوجہ کیا جاسکتا ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved