• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ٹیکس پر زکوٰۃ

استفتاء

عرض یہ ہے کہ مجھے زکوۃ کے مسئلے پر آپ کی رہنمائی چاہیے۔ میرا ایک کارخانہ ہے جس میں جوتی تیار ہوتی ہے حکومت کی طرف سے سوشل سکیورٹی کے نام سے ایک فنڈ قائم کیا گیا ہے۔جس میں فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کا علاج مفت کیا جاتا ہے اور اس علاج کے لیے فنڈ کارخانہ داروں سے وصول کیا جاتا ہے اور انہیں ایک کارڈ بنا کر دیاگیا ہے اور اس کی ادائیگی ہر ماہ کارخانہ دار ادا کرتا ہے۔کیا یہ رقم زکوۃ فنڈ سے ادا ہو جائے گی؟کیونکہ یہ بھی مستحق لوگوں پر خرچ ہوتی ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکور ہ صورت میں یہ رقم زکوۃ فنڈ سے دینا درست نہیں اور ایسا کرنے سے زکوۃ ادا نہ ہوگی۔کیونکہ یہ رقم بمنزلہ ٹیکس کے ہے یا ملازمین کی اجرت کے بمنزلہ ہے اور ٹیکس یا اجرت میں زکوۃ دینا درست نہیں۔

شامی(3/289) میں ہے:

مطلب ‌لا ‌تسقط ‌الزكاة بالدفع إلى العاشر في زماننا ثم قال: واعلم أن بعض فسقة التجار يظن أن ما يؤخذ من المكس يحسب عنه إذا نوى به الزكاة وهذا ظن باطل

الفقہ الاسلامی وادلتہ (2/894) میں  ہے:

لا تجزئ أصلاً الضريبة عن الزكاة؛ ‌لأن ‌الزكاة ‌عبادة مفروضة على المسلم شكراً لله تعالى وتقرباً إليه، والضريبة التزام مالي محض خال عن كل معنى للعبادة والقربة، ولذا شرطت النية في الزكاة ولم تشرط في الضريبة، ولأن الزكاة حق مقدر شرعاً، بخلاف الضريبة فإنها تخضع لتقدير السلطة، ولأن الزكاة حق ثابت دائم، والضريبة مؤقتة بحسب الحاجة، ولأن مصارف الزكاة هي الأصناف الثمانية: الفقراء والمساكين المسلمون إلخ، والضريبة تصرف لتغطية النفقات العامة للدولة. وللزكاة أهداف روحية وخلقية واجتماعية إنسانية، أما الضريبة فلا يقصد بها تحقيق شيء من تلك الأهداف.

شامی(3/202،206) میں ہے:

هى تمليك جزء مال عينه الشارع من مسلم فقير غير هاشمى ولا مولاه مع قطع المنفعة عن الملك من كل وجه لله تعالى

ہندیہ(1/413) میں ہے:

ولو ‌نوى ‌الزكاة ‌بما يدفع المعلم إلى الخليفة، ولم يستأجره إن كان الخليفة بحال لو لم يدفعه يعلم الصبيان أيضا أجزأه، وإلا فلا، وكذا ما يدفعه إلى الخدم من الرجال والنساء في الأعياد وغيرها بنية الزكاة

فتاویٰ عثمانی (2/67) میں ہے:

سوال:جو لوگ زکوۃ ادا کرتے ہیں کیا وہ ٹیکس بھی ادا کریں یا نہیں،دونوں صورتوں میں زبردست مالی خسارہ ہوتا ہے زکوۃ نہ دینے کی صورت میں مجرمِ خدا ہو جاتے ہیں،ٹیکس نہ دیں تو حکومت پیچھا نہیں چھوڑتی،کیا ٹیکس کی ادائیگی سے زکوۃ ادا ہوگی یا نہیں؟اب ٹیکس سے بچنے کے لیے اگر کوئی رجسٹروں میں کمی بیشی کرے تو کوئی صورت ہے؟

جواب:سرکاری ٹیکسوں کی ادائیگی سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی حکومت کو صرف ایسے ٹیکس لگانے چاہیے جو عوام پر بار نہ بنیں، اگر حق و انصاف سے زائد ٹیکس لگائے گئے ہیں تو ان سے اخفاء کے ذریعے نجات حاصل کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں جھوٹ وغیرہ کا گناہ مول نہ لیا جائے۔

فتاویٰ عثمانی (2/157) میں ہے:

سوال: مسجد کے ایک امام صاحب ہیں محلہ کی مدرسے کی مدرس بھی ہیں فطرہ کی رقم سے ان کی خدمت میں بطور نظرانہ پیش کیا جائے تو کیا یہ صحیح ہے؟

جواب: زکوۃ اور فطرہ کی رقم امام مسجد یا مدرس کو اس کی خدمت کے معاوضے میں دینا جائز نہیں ہے۔اس کو تنخواہ الگ فنڈ سے دینی چاہیے۔ہاں! اگر تنخواہ الگ سے بقدر ضرورت مقرر ہو اس کے باوجود وہ صاحب نصاب نہ ہو تو کبھی کبھی اس کی زکوۃ یا فطرہ سے امداد کر دینے میں مذائقہ نہیں لیکن زکوۃ اور فطرے کے اس رقم کو نہ تنخواہ کا جزء بنایا جائے جی اور نہ تنخواہ مقرر کرتے وقت یہ بات پیش نظر رکھی جائے کہ اتنی رقم ان کو زکوۃ یا فطرے سے  بھی ملتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved