• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

“تیرے سوا کسی اور سے نکاح کروں تو اسے تین طلاق” کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے کسی ایک لڑکی کو متعین کرکے کہا کہ” اگر اس لڑکی کے سوا کسی اور لڑکی سے میرا نکاح کروا دیا تو اس کو تین طلا قیں ہیں”۔ اب یہ شخص اس (متعینہ ) لڑکی کے سوا کسی اور سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو کیا صورت ہو سکتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر اس شخص کا نکاح اس لڑکی کے علاوہ کسی اور لڑکی سے کروایا تو اس صورت میں نکاح کے فوراً بعد  لڑکی کو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی البتہ اس کے بعد اگر لڑکا دوسرا نکاح کسی اور لڑکی سے کرے گا تو اس پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

ہندیہ (1/420) میں ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

ہندیہ (1/414) میں ہے:

رجل قال أية امرأة أتزوجها فهي طالق فهذا على امرأة واحدة إلا أن ينوي جميع النساء وهذا بالعربية ولو قال بالفارسية هر كدام زن كه بزنى كنم يقع كل امرأة قال الصدر الشهيد رحمه الله تعالى والمختار أنه يقع على امرأة واحدة

شامی (4/596) میں ہے:

 (وفيها [أي الفاظ الشرط]) كلها (تنحل) أي تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما….

قوله: (إلا في كلما) فإن اليمين لا تنتهي بوجود الشرط مرة وأفاد حصره أن متى لا تفيد التكرار وقيل تفيده والحق أنها إنما تفيد عموم الأقات…… إلى أن قال …. و أي كذلك حتى لو قال أي امرأة أتزوجها فهي طالق لا يقع إلا على امرأة واحدة كما في المحيط وغيره

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved