- فتوی نمبر: 30-158
- تاریخ: 23 جولائی 2023
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
پہلا واقعہ
بیوی (***) کا بیان:
دو سال پہلے شوہر نے جب میں امید سے تھی پانچواں ماہ تھا ہمبستری کا کہا میں نے منع کر دیا کیونکہ دو حمل ضائع ہو چکے تھے احتیاط کے لیے منع کیا تھا اس وقت شوہر نے کہا کہ” تو میرے پر حرام ہے "
شوہر(کامران) کا بیان:
میرے ذہن میں کچھ نہیں نہ میں نے کچھ کہا وہ کہہ رہی ہے اس کو علم ہوگا وہ جھوٹ بول رہی ہے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا ۔
دوسرا واقعہ
بیوی (***) کا بیان:
*** اپنی والدہ کے ساتھ گھریلو مسئلے میں بات چیت کر رہے تھے اور غصے میں بھی تھے کافی دیر تک بات چلتی رہی کافی وقت گزر گیا، پھر میں نے ان کو پیار سے کہا کہ غصہ نہ کیا کریں اس وقت کہا کہ "حرام ہے” کس نیت سے کہا مجھے پتہ نہیں،
شوہر(کامران) کا بیان:
میری اہلیہ کی طرف نہ میرا منہ تھا نہ میں نے اہلیہ کا نام لیا اور نہ ہی میری کوئی نیت تھی بس صرف اتنا کہا تھا کہ” حرام ہے” باقی بات ویسے ہی ہے جو اہلیہ نے لکھی ہےاس کا کیا حکم ہے کیا ہمارا نکاح باقی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی ہے لہذا اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھا رہنا چاہتے ہیں تو دوبارہ نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں گواہ بھی ہوں گے اور مہر بھی ہوگا نیز آئندہ شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا ۔
توجیہ :مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق دو سال پہلے جب شوہر نے ایک موقع پر کہا تھا کہ *** تو اگرچہ شوہر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ بیوی جھوٹ بول رہی ہے لیکن چونکہ طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے جس کی وجہ سے اگر وہ شوہر سے طلاق کے الفاظ سن لے تو اس کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے اور چونکہ اس واقعہ میں بیوی کے بیان کے مطابق اس نے شوہر سے یہ الفاظ خود سنے تھے اس لیے بیوی کے حق میں اسی وقت ایک بائنہ طلاق واقع ہو چکی تھی جس کی وجہ سے بیوی کے حق میں اسی وقت نکاح ختم ہو گیا تھا اور اگر بالفرض اس وقت شوہر نے واقعی یہ الفاظ نہ کہے ہوں تو پھر بھی حالیہ واقعہ سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے، نیز حالیہ واقعہ میں اگرچہ شوہر کا کہنا ہے کہ اس نے بیوی کا نام نہیں لیا لیکن سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ بیوی کو ہی کہے ہیں کیونکہ اول تو شوہر نے بیوی کے بات کرنے پر یہ الفاظ کہے تھے دوسرے یہ کہ ایسے الفاظ بیوی کو ہی کہے جاسکتے ہیں اس لیے ان الفاظ سے بھی ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ الغرض بہر صورت ایک بائنہ طلاق واقع ہو چکی ہے جس کے بعد اب دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے باہمی رضامندی سے نیا نکاح کرنا ضروری ہے جس میں گواہ بھی ہوں اور مہر بھی دوبارہ مقرر ہو۔
الدر المختار شرح تنوير الأبصار (4/450)میں ہے:
«ومن الالفاظ المستعملة، الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف»
«(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر)
«وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية»»
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
فالحكم الاصلي بما دون ثلاث من الواحده البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك ايضا حتى لا يحل له وطوها الا بنكاح جديد .
الدر المختار (5/42) میں ہے:
وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع .
رد المحتار (4/449) میں ہے:
والمراة كالقاضي اذا سمعته او اخبرها عدل لا يحل لها تمكينه .
شامی (4/529) میں ہے:
ولا يريد انت علي حرام على المفتي به من عدم توقفه على النيه مع انه لا يلحق البائن ولا يلحقه البائن لكونه بائنا بما ان عدم توقفه على النيه امر عرض له لا بحسب اصل وضعه.
فتاوی محمودیہ(13/297) میں ہے:
جواب : جب عورت نے تین مرتبہ طلاق دینا خود اپنے کان سے سنا ہے تو پھر اس کے لیے زید کو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں جو جائز صورت بھی عورت کےلئے ***کے قبضہ سے بچنے کی ہو اختیار کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved