• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

’’تم میری طرف سے فار غ ہو‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

میرے کزن کے ساتھ ایک مسئلہ ہوا ہے ، مسئلہ یہ ہے کہ آفس سے گھر آتے ہی آپس میں  لڑائی شروع ہوئی، اس نے اپنی بیوی سے کہا تم اپنے گھر چلی جاؤ میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ تم اپنا بندوبست کرو، تم میرے ساتھ نہیں رہ سکتی،  اس کی بیوی نے کہا ہم بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں، اس نے کہا میں نے تمہاری بات نہیں سننی، تم اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ، میں تمہارے بھائیوں کو کال کرتا ہوں وہ آ کر تمہیں لے جائیں گے۔ پھر وہ غصے میں کہنے لگا  کہ تم جاؤ،  میں نے سوچ لیا ہے،  "تم فارغ ہو میری طرف سے” یہ جملہ ایک یا دو دفعہ کہا، پھر اس کی بیوی نے اسے  تھپڑ مارا تو وہ خاموش ہوگیا، اب وہ کہہ رہا ہے اس کا مطلب طلاق  نہیں ہوتا، اگر ہوتا بھی ہے تو مجھے نہیں پتا تھا یہ تو عام سے الفاظ ہیں۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟

شوہر کا موقف:

مذکورہ صورت حال میں میری طلاق کی نیت بالکل نہ تھی بس غصے میں کہہ دیا تھا۔

بیوی کا موقف:

"بیوی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے مذکورہ صورت حال کی تصدیق کی اور کہا کہ میرے شوہر نے اس کے علاوہ کبھی طلاق کے الفاظ نہیں کہے اور اس موقع پر بھی شوہر کی نیت طلاق کی نہ تھی”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں ایک  بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوجاتا ہے اور  بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں رہتا، لہٰذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں توکم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح  کرکے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ:دوبارہ نکاح کے بعد شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیارحاصل  ہوگا۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں شوہر کا جملہ کہ”تم فارغ ہو میری طرف سے” کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے جس سے غصہ کی حالت میں بغیر نیت کے بھی بیوی کے حق میں   بائنہ طلاق  واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں  اگرچہ شوہر نے طلاق کی نیت نہ کی تھی لیکن چونکہ اس نے غصے کی حالت میں یہ جملہ کہا ہے  لہذا اس جملے سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے بیوی کے حق میں سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہے۔

در مختار مع رد المحتار (4/521) میں ہے:

والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط ويقع في حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

درمختارمع ردالمحتار(4/516)میں ہے:

فالكنايات (‌لا ‌تطلق ‌بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهى حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب

احسن الفتاویٰ (ج۵، ص۱۸۸) میں ہے:

’’سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

الجواب باسم ملہم الصواب: بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ  بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

”فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد“

نیز در مختار (5/42) میں ہے:

”وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved