- فتوی نمبر: 7-357
- تاریخ: 15 ستمبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
غلہ منڈی میں زمیندار جب اپنا مال لاتا ہے تو بعض اوقات وہ کہتا ہے کہ ریٹ زیادہ لگائو اور پیسے بے شک سال کے بعد دے دینا۔ آڑھتی وہ مال زیادہ قیمت پر لے لیتے ہیں اب انہیں چاہے نقصان ہو یا فائدہ وہ سال کے بعد اسے پیسے دینے کے پابند ہیں۔ اس دوران آڑھتی حضرات زمیندار کے مال کو فروخت کرتے ہیں اور اس پیسے سے مزید کاروبار بھی کرتے رہتے ہیں۔ کیا مذکورہ بالا طریقہ کار شرعاً درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
زمیندار اگر آڑھتی سے اپنے مال کا ریٹ زیادہ لگانے کا مطالبہ کرے اور قیمت کی ادائیگی میں ایک سال تک کی مہلت دے دے تو آڑھتی کے لیے مال زیادہ قیمت پر خریدنا جائز ہے۔ اور اس مال کو فروخت کر کے اس سے حاصل شدہ رقم کو پورا سال کاروبار میں استعمال کرتے رہنے میں بھی شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔
(١) درر الحکام: (١/٢٢٨، المادة ٢٤٧):
إذا عقد البیع علی تأجیل الثمن إلی کذا یوماً أوشهراً أوسنة أو إلی وقت معلوم عند العاقدین کیوم قاسم أو النیروز صح البیع. یعنی أن التأجیل إذا کان بالأیام أو الشهور أو السنین أوبطریق آخر فهو صحیح مادام الأجل معلوماً.
(٢) في الهدایة(ج٣ ص ٢١):
ویجوز البیع بثمن حال ومؤجل إذا کان الأجل معلوماً.
(٣) بدائع الصنائع: (فصل حکم الملک و الحق الثابت فی المحل) طبع شاملة:
وأما بیان حکم الملکِ والحق الثابت فی المحل فنقول و باللّٰه التوفیق: حکم الملک ولایة التصرف للمالک في المملوک باختیاره… فنقول للمالک أن یتصرف فی مکه أيّ تصرف شاء سواء کان تصرفاً یتعدی ضرره إلی غیره أو لایتعدی… والله تعالیٰ أعلم بالصواب
© Copyright 2024, All Rights Reserved