• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

وکالت بالاسثتمار کی ا یک صور ت

  • فتوی نمبر: 13-50
  • تاریخ: 19 جنوری 2019

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے چند دوستوں   نے ایک کاروبار مشترکہ طور پر شروع کیا ۔کاروبار یہ تھا کہ پہاڑوں   سے گرینائٹ پتھر نکال کر بیچا جائے ۔لیکن پہاڑ سے گرینائٹ ہر شخص از خود نہیں   نکال سکتا بلکہ اس کے لیے حکومت سے این او سی لینا پڑتا ہے جس میں   حکومت علاقہ بھی طے کرتی ہے کہ کس علاقہ سے نکالنا ہے ۔چونکہ این او سی لینے میں   بھی مراحل ہوتے ہیں   اور بہت سی پیچیدگیاں   ہوتی ہیں   اس لیے ہر ایک کو این او سی آسانی سے نہیں   ملتا ۔لہذا بہت سی مرتبہ یہ ترتیب اختیار کی جاتی ہے کہ جس شخص کے پاس این او سی ہو اس سے معاہدہ کرکے کام شروع کیا جاتا ہے لہذا میرے دوستوں   نے بھی مانسہرہ کے علاقے میں   این او سی والے شخص سے شرکت کا باہمی معاہدہ کیا جو کہ ساتھ لف ہے اس کے معاہدے کے بعد میرے دوستوں   کو سرمائے کی ضرورت تھی اس کے لیے دوستوں   نے یہ ترتیب اختیار کی کہ ہر فرد انفرادی طور پر علیحدہ علیحد ہ انویسٹر لائے گا اور اس کے ساتھ نفع ونقصان کا اپنے حصے میں   ذامہ دار ہو گا۔اگر چہ میری دوستی سب کے ساتھ ہے لیکن مجھے انویسٹمنٹ لگانے کے لیے محمد ایوب کے بیٹے سلمان ایوب نے قائل کیا ہے ۔میرا اس کے ساتھ ایک معاہدہ طے ہوا ہے جس کی کاپی ساتھ لف ہے آپ اس سے گذارش ہے کہ وضاحت فرمادیں   کہ آیا میرا کیا ہوا معاہدہ شرعا درست ہے؟

مزید وضاحت:

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کمپنی کے پاس اب پانچ کروڑ روپے موجود ہیں   جن سے کمپنی کام کرہی ہے ۔ان پانچ کروڑ میں   سے ستر لاکھ روپے محمد ایوب کے نام پر ہیں   ان ستر لاکھ میں   بیس لاکھ محمدایوب کا ہے اور پچاس لاکھ میرا ہے۔کمپنی نے پانچ کروڑ کے سو شیئرز بنادیے ہیں   اور ہر شیئر پانچ لاکھ کا قرار پایا ہے لہذا محمد ایوب کے نام پر کمپنی کے پاس چودہ شیئر ز لگے ہوئے ہیں   اسی طرح کمپنی نے تمام شرکاء کے شیئرز بنائے ہیں   (کسی بندے کے نام پر پانچ لاکھ سے کم کا شیئر نہیں   ہے)محمد ایوب صاحب اپنے بیس لاکھ کے نفع نقصان کے خود ذمہ دار ہوں   گے جبکہ میرے پچاس لاکھ میں   میں  اور وہ دونوں   آدھے آدھے نفع ونقصان کے مالک ہوں   گے۔

کاروبار کی مزید وضاحت

مانسہرہ کے علاقے میں   جہاں  سے تھوڑی سی معدنیات نکلنے کی بھی امید ہو وہاں   کے این او سی لئے جاچکے ہیں   ۔حکومت بڑے بڑے رقبوں   کے این او سی محض چند لاکھ میں   دے دیتی ہے ۔اس لیے پورے علاقے میں   کوئی رقبہ بغیر این او سی کے نہیں   ہے ۔این او سی درحقیقت کھدائی کرکے معدنیات نکالنے کے لیے زمین لیز پر لینے کا ہوتا ہے حکومت جب این او سی جاری کرتی ہے تو ابتداء ً چند سالوں   کے لیے ہوتا ہے ۔حکومت کی منشاء یہ ہوتی ہے کہ ابتداء ً دیکھ لیا جائے کہ آیا یہ شخص معدنیات نکالتا ہے یا نہیں   اس مرحلہ کے این او سی کو PLکہا جاتا ہے بعد میں   اس کی لیز چالیس سال کے لیے کردی جاتی ہے اس مرحلہ کی این او سی کو MLکہا جاتا ہے۔جس جگہ کااین اوسی حاصل کرلیا گیا ہو اور کوئی اور شخص وہاں   کام کرناچاہے(کیونکہ اس شخص کو نئی جگہ تو اب ملنی نہیں  )تو وہ شخص سودے بازی کر کے لیز خریدتا ہے ۔

نوٹ:         مارکیٹ میں   لیز کی خریدوفروخت حکومت اور شریعت سے قطع نظر کرکے چلتی ہے۔

اب صورتحال یہ کہ میرے دوستوں   نے بھی ایک لیز والی جگہ ڈھونڈی جس کی لیز ظفر محمود کے نام پر ہے ۔ظفر محمود نے ابتداء ً کھدائی کر کے کام شروع کیا لیکن اس کے بس کا نہ تھا لہذا اس نے میرے دوستوں   سے شرکت کا معاہدہ کرلیا اور معاہدہ کرتے وقت مائن اوروہاں  موجود مشینری کی قیمت 4,25,000,00روپے قرار پائی جس کا نصف میرے دوستوں   نے ادا کیا ۔چونکہ ان کے پاس مزید رقم نہیں   تھی جب کہ کام شروع کرنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت تھی لہذا میرے دوست سلمان ایوب نے مجھے شریک کیا حتی کہ کاروبار کی بنیادی رقم پانچ کروڑ روپے طے پائی اور کام یہ ہے کہ پہاڑسے ماربل کے بڑے بڑے پتھر توڑ کر باہر لا کرٹرک پر لوڈ کرکے آگے کاٹ کر فروخت کرنے والی فیکٹریوں   کے ہاتھ ماربل فروخت کردینا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں   دومعاملے موجود ہیں  :

۱۔ پہلامعاملہ فریق اول (ظفرمحمود)اور فریق ثانی ایوب وشرکاء )کا ہے ۔یہ معاملہ حنابلہ ؒ کے نزدیک مساقات پر قیاس کرتے ہوئے جائز ہے البتہ اس میں   شرکاء کی جو تنخواہ طے کی گئی ہے یہ بات درست نہیں   ہے اگر ضرورت کی وجہ سے ہر مہینے خرچہ وغیرہ کی رقم لی جائے تو وہ علی الحساب ہو گی یعنی بعد میں   وہ نفع میں   سے ایڈوانس شمار ہو گی اور نقصان کی صورت میں   واپس ہو گی۔

دوسرا معاملہ ایوب اور سائل کا ہے یہ صورت وکالت بالاستثمارکی ہے جو جائز ہے البتہ نقصان کی صورت میں   سائل کی رقم کے حساب سے جو نقصان ہو گا وہ آدھا آدھا ہوگایہ شرط درست نہیں   بلکہ وہ کل نقصان سائل کاشمار ہو گا۔

چنانچه مغني(18/9/8/7)

فان اشترک ثلاثة من احدهم دابة ومن آخر راوية ومن الآخر العمل علي ان ما رزق الله تعالي فهو بينهم صح في قياس قول احمد فانه قد نص في الدابة يدفعها الي آخريعمل عليها علي ان لهما الاجرة علي الصحة وهذا مثله لانه دفع دابته الي آخريعمل عليها  والراوية عين تنمي بالعمل عليها فهي کالبهيمة فعلي هذا يکون ما رزق الله بينهم علي ما اتفقوا عليه

 وقالوا لو دفع شبکة الي الصياد ليصيد بها السمک بينهما نصفين فالصيد کله للصياد ولصاحب الشبکة اجر مثلها وقياس مانقل عن احمد صحة الشرکة وما رزق بينهما علي ما شرطاه لانها عين تنمي بالعمل فيها فصح دفعها ببعض نمائها کالارض۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولنا إنها عين تنمي بالعمل عليها فصح العقد عليها ببعض نمائها کالدراهم والدنانير وکالشجر في المساقات والأرض في المزراعة ولولهم إنه ليس من أقسام الشرکة ولا هو مضاربة قلنا : نعم لکنه يشبه المساقات والمزارعة فإنه دفع لعين المال إلي من يعمل عليها ببعض نمائها مع بقاء عينها وبهذا يتبين أن تخريجها علي المضاربة بالعروض فاسد فإن المضاربة إنما تکون بالتجارة والتصرف في رقبة المال وهذا بخلافه وذکر القاضي في موضع آخر فيمن أستأجر دابة ليعمل عليها بنصف ما يرزقه الله تعالي أو ثلثه جاز ولا أري لهذا وجها فإن الإجارة يشترط لصحتها العمل بالعوض وتقدير المدة أو العمل ولم يوجد ولأن هذا عقد غير منصوص عليه ولا هو في معني المنصوص فهو کسائر العقود الفاسدة إلا أن يريد بالإجارة المعاملة علي الوجه الذي تقدم وقد أشار إلي ما يدل علي تشبيهه لمثل هذا بالمزارعة فقال : لا بأس بالثوب يدفع بالثلث والربع لحديث جابر أن النبي صلي الله عليه و سلم أعطي خيبر علي الشطر وهذا يدل علي أنه قد صار في هذا ومثله إلي الجواز لشبهه بالمساقات والمزارعة لا إلي المضاربة ولا إلي الاجارة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved