• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وکیل سے طلاق کا جھوٹا لیٹر بنوانا

استفتاء

بیان حلفی

میں*** ولد***حلفاً بیان کرتا ہوں کہ میری دوسری  شادی 20 جولائی 2016ء کو ہوئی۔ نکاح باضابطہ ہوا گواہوں کی موجودگی میں نکاح رجسٹرڈ بھی کرایا گیا۔ اور یہ شادی لڑکی کے گھر والوں سے چھپ کر کی گئی میرا سکول ہے اور وہ لڑکی سکول میں ٹیچنگ کرتی تھی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد لڑکی کے گھر والوں کو پتہ چلا کہ ان کا نکاح ہوا ہے اور لڑکی کے بھائی نے کہا طلاق دو، لڑکی کا بھائی کافی طیش میں تھا  لہذا اس کو مطمئن کرنے کے لیے ہم دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ اس کو ایک جھوٹا لیٹر وکیل سے بنوا دیں۔ لہذا میں نے وکیل کو بتایا کہ میں نے نہ طلاق دی ہے نہ دینی ہے اور ایک لیٹر بنا دو تاکہ بھائی مطمئن ہو جائے ، اس نے بنا دیا خود سے، نہ میں نے پڑھا، نہ سائن کیے نہ ہی دیکھا، وکیل نے وہ لیٹر میرے دوست کے ہاتھ لڑکی کے بھائی کو بھجوا دیا۔ ہم رجوع میں ہی تھے اور آپس میں رجوع میں ہی ہیں نہ میں نے زبان سے طلاق دی نہ دل میں، نہ اس لیٹر پر سائن کیے نہ اس کو پڑھا۔ یہ بتایا جائے کہ طلاق ہوئی یا نہیں۔

وکیل کو یہ بات کہتے وقت میرا ایک دوست بھی موجود تھا وہ بھی اس بات کا گواہ ہے کہ میں نے وکیل سے اس طرح کی بات کی تھی، وکیل صاحب  بھی اس بات کو مانتے ہیں بلکہ وہ یہ کہتے کہ یہ طلاق مؤثر نہیں ہوئی۔ نیز میری اہلیہ میری بات سے مطمئن ہیں۔

نوٹ: لڑکی اور لڑکے  کی برادری اور معاشرتی لحاظ سے مقام یکساں ہے کوئی ایسا فرق نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی نکاح برقرار ہے۔

توجیہ: خاوند نے طلاق کے الفاظ نہ بولے ہیں نہ لکھے ہیں اور نہ لکھے ہوئے پر دستخط کیے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اس کی طرف طلاق کی نسبت ہو سکتی ہے اس وجہ سے کہ اس نے وکیل سے طلاق نامہ (طلاق کا لیٹر) لکھنے کا کہا ہے۔ اور خاوند کا وکیل سے طلاق کا لیٹر لکھوانا طلاق کا اقرار ہے کما فی الشامیۃ:

ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقراراً بالطلاق وإن لم يكتب. (4/443)

اس سے معلوم ہوا کہ طلاق نامے کے لکھنے کا امر طلاق کے  اقرار کو متضمن ہے۔ گویا خاوند یوں کہتا ہے کہ جو طلاق میں دے چکا ہوں اسے تحریر میں لے آؤ، اور خود اقرار بالطلاق کے بارے میں یہ صراحت موجود ہے کہ اگر اقرار بالطلاق ہازلاً کیا جائے اور اس بات پر گواہ بھی قائم کر لیے جائیں تو قضاءً اور دیانتاً دونوں طرح طلاق واقع نہیں ہوتی۔  جیسا کہ فتاویٰ شامی (4/431) میں ہے:

(أو هازلاً) أي فيقع قضاء وديانة كما يذكره الشارح، وبه صرح في الخلاصة معللا بأنه مكابر باللفظ فيستحق التغليظ، وكذا في البزازية. وأما ما في إكراه الخانية: لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع، كما لو أقر بالطلاق هازلاً أو كاذباً فقال في البحر: إن مراده لعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة، ثم نقل عن البزازية والقنية: لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضاً. ………………………………………فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved