• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والد کا بیٹیوں کو دیے ہوئے حصہ کی قرض کی حیثیت، بیٹیوں کا والدہ کے ترکہ میں حصہ کا مطالبہ، بہنوں کو زبردستی دستبرداری پر مجبور کرنا

استفتاء

1۔ ہمارے والد صاحب نے اپنی حیات میں جائیداد میں سے دو بہنوں کو حصہ دیدیا تھا۔ اور اقرار نامہ لکھوا لیا تھا۔ ( دستاویز ہمراہ لف ہے ) کیا اس صورت میں حصہ ادا ہوگیا تھا؟ اور اگر نہیں ہوا اس وقت جو رقم وصول کی تھی اس کا کیا ہوگا؟ اور کیا اب بھائیوں سے حصہ کا مطالبہ کرنا ٹھیک ہے؟

2۔  ہماری والدہ کی وفات والدکی وفات کے تقریباً پانچ برس بعد ہوئی تھی۔ اس صورت میں کیا والدہ کا والدکی جائیداد میں سے حصہ بنتا ہے؟ اور بھائیوں سے والدہ کے حصہ سے حصہ کا مطالبہ کرنا ٹھیک ہے؟

3۔ جائیداد میں حصہ کے مطالبہ پر بھائیوں اور بھابھیوں کی طرف سے قطع تعلقی کا دباؤ ہے۔ اس صورت میں کیا موقف اختیار کرنا چاہیے۔ حصہ کا مطالبہ کرنا چاہیے یا سب جائیداد ( والد/ والدہ  ) سے دستبردار ہو جانا چاہیے؟ اور  دستبردار ہونے کی صورت میں کوئی شرعی گناہ ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ آپ کے بہنوں کو والد صاحب کی طرف سے دیا جانے والا حصہ قرض شمار ہوگا۔ ہبہ یا وراثت شمار نہیں ہوگا۔ گویا یوں سمجھا جائے گا کہ آپ کے والد صاحب نے بہنوں کو اتنی مقدار اپنی زندگی میں قرض دیا تھا۔ لیکن کس مالیت کے حساب سے؟ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جس وقت مذکورہ روپے ادا  کیے گئے تھے اس وقت ان روپوں میں کتنی چاندی آتی تھی جتنی چاندی اس دور میں آتی تھی اتنی چاندی کے وہ مقروض سمجھے جائیں گئے اور آج ترکے میں سے اتنی مالیت وراثت میں سے بننے والے حصے سے منہا کر لی جائیگی ۔ اگر چاندی کی مالیت اور اس کا حصہ برابر سرابر ہو تو فبہا اور اگر کمی بیشی ہو تو تمام ورثاء کی باہمی رضامندی سے معاملہ نمٹا  لیا جائے۔

2۔ صورت میں نمبر 2 میں والدہ کا حصہ بنتا ہے اور وہ آپ بھائیوں سے اس کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔

3۔ صورت میں نمبر 3 میں والدہ کے ترکہ میں سب بہن بھائیوں کا حصہ بنتا ہے۔ بہنیں بھائیوں سے اس کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔ بہنوں پر دباؤ ڈال کر ان سے دستبرداری کرانا گناہ اور ظلم کی بات ہے۔ دباؤ کی وجہ سے بہنوں کا اپنا حق بھائیوں کو دینے میں بہنوں کو گناہ نہیں ہوگا البتہ بھائیوں  اور بھابھیوں کو ہوگا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved