- فتوی نمبر: 31-26
- تاریخ: 19 اپریل 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
1۔کیا زیر ناف بال اور زیر بغل کے غیر ضروری بال صاف کرنے کے بعد غسل کرنا ضروری ہے؟
2۔کیا سر کے بالوں کو کوڑے میں پھینکنا جائز ہے یا جلانا ضروری ہے؟
3۔کیا اللہ یا محمد کے نام کو جلانا ٹھیک ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ضروری نہیں۔
2۔جلانا ضروری نہیں بلکہ جلانا درست بھی نہیں لہٰذا اگر ممکن ہو تو کہیں دفن کردئیے جائیں اور اگر دفن کی کوئی جگہ نہ ملے تو کسی صاف جگہ ڈال دیئے جائیں جہاں عموماً غیر محرم کی نظر نہ پڑے البتہ ناپاک اور گندی جگہ میں نہ ڈالے جائیں۔
3۔اللہ یا محمد کے نام کو جلانا ٹھیک نہیں۔
1۔المحیط البرہانی(82/1) میں ہے:
أسباب الغسل ثلاثة: الجنابة، والحيض، والنفاس۔۔۔۔۔۔الجنابة تثبت بشيئين:أحدهما: انفصال المني عن شهوة، والثاني: الإيلاج في الآدمي۔
2۔شامی (668/9) میں ہے :
فاذا قلم اظفاره اوجز شعره ينبغى ان يدفنه فان رمى به فلا بأس وان القاه في الكنيف او فى المغتسل كره لانه يورث داء.
ہندیہ (5/389) میں ہے:
یدفن أربعة: الظفر، والشعر، وخرقة الحیض والدم.
شامی (6/371) ميں ہے:
قال العلامة الحصکفي رحمه الله تعالی: “و کل عضو لا یجوز النظر إلیه قبل الانفصال، لا یجوز بعده و لا بعد الموت، کشعر عانة و شعر رأسها”.
فتاوی محمودیہ (259/19)میں ہے :
سوال :انسان کے ناخن اور بال وغیرہ کو جلانا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب :جلانا جائز نہیں ہے۔
وفى الخانية ينبغى ان يدفن قلامة ظفره و محلوق شعره،وان رماه فلا بأس وكره القائه فى كنيف او مغتسل لان ذالك يورث داء وروى ان النبى صلى الله عليه وسلم امر بدفن الشعر والاظفار وقال لا تتغلب به سحرة بنى آدم،ولانهما من اجزاء الآدمى فتحترم (طحطاوی،1/287)
3۔الدرالمحتار (9/696) میں ہے :
“الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء “
ہندیہ (5/323) میں ہے:
المصحف اذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لايحرق بالنار اشار الشيباني الي هذا في السيرالکبيروبه ناخذکذافي الذخيرة
امداد الاحکام (1/229) میں ہے:
سوال: پراگندہ اوراق یا بوسیدہ قرآن مجید کو دفن یا دریا برد کیا جاوے یا کسی طرح؟ نیز دیگر اوراق اردو، انگریزی اخبارات وغیرہ کو جن میں بعض مواقع پر آیات اور انگریزی کتب یا اخبارات وغیرہ میں تصاویر بھی ہوتی ہیں، کس طرح تلف کیا جاوے؟
جواب: قال في الفتاوى الهندية: المصحف إذا صار خلقاً لا يقرأ منه ويخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن ودفنه أولى من وضعه موضعاً يخاف أن يقع عليه النجاسة. (6/216). وفيه (318) المصحف إذا صار خرقاً وتعذر القراءة منه لا يحرق بالنار، أشار الشيباني إلى هذا، وبه نأخذ.
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کو دفن کر دینا چاہیے، جلانا نہ چاہیے، باقی اوراق جن میں قرآن کی آیت یا خدا، رسول کا نام ہو، اس میں سے خدا اور رسول کے نام کو نکال لینا چاہیے، ان کو دفن کر دیا جاوے، اور باقی کو جلا دینا جائز ہے، مگر قرآن اور خدا کے نام کو اس طرح دفن کیا جائے جس طرح بغلی قبر میں مردے کو رکھا جاتا ہے، تاکہ اس پر مٹی نہ پڑے۔
ويلحد له لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب عليه، فهو حسن أيضاً، كذا في الغرائب، (عالمگیری)۔
احسن الفتاوی (8/16) میں ہے:
’’سوال :کتب حدیث کے بوسیدہ اوراق اگر دفن کرنے کا موقع نہ ملے یا شہر میں کوئی مناسب جگہ نہ ملے تو ان کا جلانا جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب : ان اوراق سے اللہ تعالی ،انبیاء کرام علیھم السلام اور ملائکہ کے نام مٹا کر جلانا جائز ہے مگر بہتریہ ہے کہ ان کو جاری پانی میں بہادیا جائے یا دفن کردیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved