• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زوال کا وقت اور زوال کا وقفہ

  • فتوی نمبر: 9-17
  • تاریخ: 17 مئی 2016
  • عنوانات:

استفتاء

زوال کس وقت ہوتا ہے اور کتنی دیر رہتا ہے؟ زوال سے پہلے اور بعد کتنی دیر نماز نہیں پڑھنی چاہیے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عام عرف میں دن کی ابتداء سورج کے طلوع ہونے اور انتہاء غروب ہونے پر ہوتی ہے۔ اسے نہار عرفی کہا جاتا ہے۔ جبکہ شرعی اصطلاح میں دن کی ابتداء صبح صادق سے ہوتی ہے۔ اسے نہار شرعی کہتے ہیں۔ ان دونوں کی ابتداء و انتہاء سال کے مختلف دنوں میں مختلف ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے زوال کے وقت (جس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے) کی ابتداء نہار شرعی کے نصف سے ہوتی ہے اور انتہاء نہار عرفی کے نصف پر ہو جاتی ہے۔ یہ وقت عام طور سے پون گھنٹہ ہوتا ہے۔

عام  مروجہ نقشوں میں زوال کا وقت نہار عرفی کا نصف لکھا ہوتا ہے بس اس سے پیچھے پون گھنٹہ متصل مکروہ وقت ہے۔ اس وقت میں نماز پڑھنا ممنوع ہے، اس وقت کے ختم ہوتے ہی ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے جس میں ہر قسم کی نماز پڑھ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ بعض حضرات نصف نہار شرعی سے مراد وہ وقت لیتے ہیں جس میں سورج بالکل اوپر ہو اور یہ وقت چند لمحوں کا ہوتا ہے۔

فتاویٰ شامی (2/ 38) میں ہے:

و في شرح النقاية للبرجندي قد وقع في عبارات الفقهاء أن الوقت المكروه هو انتصاف النهار

إلى أن تزول الشمس و لا يخفى أن زوال الشمس إنما هو عقب إنصاف النهار بلا فصل و في هذه القدر من الزمان لا يمكن أداء الصلاة فيه فلعل المراد أنه لا يجوز الصلاة بحيث يقع جزء فيها في هذه الزمان أو المراد بالنهار هو النهار الشرعي و هو من أول طلوع الصبح إلى غروب الشمس و على هذا يكون نصف النهار قبل الزوال بزمان يعتد به.

مسائل بہشتی زیور (1/ 145) میں ہے:

’’سورج نکلنے اور ٹھیک دوپہر کو اور سورج ڈوبتے وقت کوئی نماز صحیح نہیں اور ان تینوں وقت میں سجدہ تلاوت بھی مکروہ اور منع ہے۔ ٹھیک دوپہر سے ضحوۂ کبریٰ سے زوال تک کا وقت مراد ہے یعنی زوال سے متصل قبل پون گھنٹہ یہی قول زیادہ معتبر معلوم ہوتا ہے جیسا کہ رد المحتار میں مذکور ہے۔‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved