• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زنا میں ملوس عورت کو چھوڑنے پر بچوں کو اپنے پاس رکھنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ ایک شادی شدہ عورت نے دوبار زنا کرنے کا تحریرا اقرار کیا جبکہ اس سے پہلے بھی اور اس وقت تک بھی کئی سال وہ بے شمار غیر مردوں سے رابطے اور بات چیت اور ان کو اپنی نیم عریاں تصاویر اور ویڈیوچیٹ وغیرہ جیسی باتوں میں ملوث رہی جس کے ثبوت بھی موجود ہیں ایسی عورت اپنے شوہر کو کئی سال دھوکہ دیتی رہی اور سفید جھوٹ پر خدا کی جھوٹی قسمیں بھی کھاتی رہی اور بالآخر اپنی بار بار کی جھوٹی قسموں کا بھی اقرار کیا غرض دھوکہ اور شوہر کی نافرمانی وغیرہ میں مسلسل کئی سال ملوث رہی ۔اورکئی دفعہ تنبیہ اور توبہ کی تلقین کے باوجود بازنہ آئی اور اس دوران مسلسل شوہر سے طلاق وخلع کا مطالبہ کئی سال سے کرتی آئی ۔

سوال یہ ہے کہ:

1۔ایسی عورت کو اگر شوہر اس کے والدین کے پاس بھیجدے اور بچوں کو اپنے پاس رکھے تاکہ بچے بری صحبت اور اس کے اثرات سے محفوظ رہیں تو کیا اس میں شرعا کوئی قباحت ہے ؟اس میں اگر کوئی تفصیل ہے کہ ایسی عورت کے برے اثرات سے بچوں کو بچانا ہو تو شریعت کی رو سے کیا کرنا چاہیے۔

2۔نیز ایسی صورت میں اگر عورت بچوں سے ملاقات یا بات چیت کرنا چاہیے تو اس سلسلے میں شریعت کا تفصیلی حکم کیا ہے؟آیا ملاقات اور بات چیت سے منع کیا جاسکتا ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو اس ملاقات اور بات چیت کی کیا مقدار شریعت میں متعین ہے؟

3۔مزید یہ کہ ایسی عورت کے گناہ کا تذکرہ کسی سے کرنا کیسا ہے ،اس سلسلے میں اس عورت کی حرکتوں سے دوسروں کو آگاہ کرنا چاہے کسی مصلت سے ہو یا بلامصلحت کیسا ہے ۔اگر شریعت مقدسہ ایسی عورت کی حرکتوں کا دوسروں سے ذکر کرنے کی اجازت دیتی ہے تو کس حد تک اور کن کن لوگوں سے اس کا ذکر کیا جاسکتا ہے اور اجازت کی صورت میں اس کے شوہر اور اس کے سگے بچوں پر جو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس سے بچنے کیلئے کیا شریعت نے کچھ قیود مقرر کی ہیں ؟

اگر کوئی شخص ایسی عورت کی غلط حرکتوں یا اس کے کے اقرار کا ذکر دوسروں سے یہ سمجھ کر کرتا ہے کہ یہ تو شریعت کا حکم ہے کیونکہ یہ تو شریعت کی طرف سے علی الاعلان سزا کی مستحق ہے تو اس بارے میں مفتیان عظام اور علمائے کی کرام شریعت مطہرہ کی رو سے کیا فرماتے ہیں کچھ تفصیلی اور عوام وخواص کے لیے تشفی بخش جواب سے ممنون فرمائیں ۔بینو اتوجروا

نوٹ : عرض یہ بھی ہے کہ ایک صاحب دوسروں سے ایسی عورت کے افعال کو بیان کرنا کسی وجہ سے صحیح سمجھتے ہیں اور اس کی کچھ علمی توجیہ بھی پیش کرتے ہیں اس لیے مودبانہ درخواست ہے کہ اس سلسلے میں تفصیلی جواب سے مرحمت فرمائیں کیونکہ اس طرح سے بچوں پر خاص طور سے برے اثرات پڑنے کا اندیشہ بھی ہے اور بچوں کیلئے خطرات بھی ہیں اگر جامعہ کی مہر کیساتھ اس کا جواب تفصیلی ملجائے تو یقینا خاندان ،معاشرہ اور بچوں کیلئے بہتری کا باعث ہو سکتا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ :

1۔بچوں کی عمریں کیا ہیں؟

2۔جو صاحب دوسروں سے ایسی عورت کے افعال کو بیان کرنا صحیح سمجھتے ہیں وہ اس کی علمی توجیہ پیش کرتے ہیں؟

3۔سائل کو مذکورہ عورت سے کیا تعلق ہے؟

جواب وضاحت :

عرض یہ کہ کیونکہ یہ کہ یہ مسائل متعلق بچوں کی ماں سے ہیں اور بچوں کی عمریں اس طرح ہیں 8سال کا بیٹا ،7سال کا بیٹا ،ڈھائی سال کی بچی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کی باتوں کا مختصر جواب یہ ہے کہ :

1۔بیوی کی جو صورتحال آپ نے ذکر کی ہے اگر وہ واقعتا درست ہے اس کے پیش نظر آپ بیوی کو اس کے گھر بھیج کر بچوں کو اپنے پاس روک سکتے ہیں ۔

2۔بات چیت اور ملاقات سے بچو ں کے ماں کی طرف سے مائل ہونے کا غالب گمان ہو تو اس سے بھی روک سکتے ہیں ۔

3۔عام حالات میں اس عورت کے گناہ کا تذکرہ کسی کے سامنے کرنا جائز نہیں اور اگر کوئی خاص صورتحال ہو تو صورت بیان کر کے حکم معلوم کرسکتے ہیں۔باقی جس تفصیل کے ساتھ آپ کو جوابات مطلوب ہیں اس تفصیل کے ساتھ جواب دینے میں غیر معین وقت لگ سکتا ہے اس لیے تفصیلی جواب جلدی دینے سے معذرت خواہ ہیں ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved