• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں جائیداد کسی کے نام کرنا اور زبان سے کہنا

استفتاء

ہم چھ بہنیں ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں، ہمارے والد صاحب نے دو شادیاں کیں، پہلی شادی میری والدہ سے ، دوسری اپنی بیوہ بھاوج سے، جن سے ایک بیٹا ہے جبکہ ایک سال بعد دوسری بیوی کو طلاق دے دی۔ میرے والد کی جائیداد یہ ہے:

1۔ پانچ کنال جو کہ بھائی کو دے دی، لیکن اس سے آدھی زمین کے دو ہزار روپے لیے پچاس سال پہلے۔

2۔ چار کنال ہم دو بہنوں کے نام کر دی اور اس پر مکان بنوا دیے۔

3۔ سات کنال جو خاندانی اختلاف کی وجہ سے میری والدہ کو ہبہ کر دی اور پھر ہم دو بہنوں کے نام کروا دی۔

4۔ ساتھ کنال جو ہم چھ بہنوں کے نام کر دی۔

5۔ پندرہ کنال جو ہم دو بہنوں کے نام کر دی۔

چھوٹی بہن چونکہ والدین کے ساتھ رہتی تھی اور ان کی دیکھ بھال کر تی تھی اور میرے میاں نے میرے والدین کو حج کروایا تھا اس لیے والدہ کو جو سات کنال ہبہ کی تھی وہ ہم دونوں کے نام کر دی۔

اس جائیداد کی تقسیم کے بارے میں کیا حکم ہے؟

تنقیح: زبان سے یہ کہا ہو کہ میں نے تمہیں دے دی، یہ تو یاد نہیں لیکن یہ بار بار کہتے تھے کہ میں نے تمہارے نام کروا دی۔

والد پہلے فوت ہو گئے اور والدہ بعد میں اور بھائی زندہ ہے۔ بھائی شروع سے علیحدہ رہتا تھا، اس نے والدین کو کبھی خرچہ وغیرہ نہیں دیا اور نہ دیکھ بھال کی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ بھائی کو دی گئی زمین اس کی ہے۔

2۔ چار کنال جو دو بہنوں کے نام کر دی تھی وہ بھی ان دونوں کی ملکیت ہے، کیونکہ ان کے مکان بنوانا اور زندگی میں بار بار کہنا کہ "میں نے زمین تمہارے نام کروا دی” بظاہر اس بات کا قرینہ ہے کہ والد نے یہ زمین ان کو دے دی تھی۔

3-5۔ والدہ والی سات کنال، اور پندرہ کنال دو بہنوں کے نام کر دی تھی وہ بھی ان دونوں کی ہے۔

4۔ سات کنال جو چھ بہنوں کے نام کروائی تھی وہ ان چھ کی ہے۔

و إن وهبها واحد من اثنين لا يجوز عند أبي حنيفة رحمه الله و قالا يصح لأن هذه هبة الجملة منهما إذ التمليك واحد فلا يتحقق الشيوع. (الهداية، كتاب الهبة: 288)

قوله (و لو وهب اثنان داراً لواحد صح) لأنها سلماها جملة و هو قد قبضها جملة فلا شيوع قوله (و لا عكسه) و هو أن يهب واحد من اثنين كبيرين و لم يبين نصيب كل واحد عند أبي حنيفة رحمه الله لأنه هبة النصف من كل واحد منهما بدليل أنه لو قبل أحدهما فيما لا يقسم صحت في حصته دون الآخر فعلم أنهما عقدان بخلاف البيع فإنه لو قبل أحدهما فإنه لا يصح لأنه عقد واحد و قالا يجوز النظر إلی أنه عقد واحد فلا شيوع. (البحر الرائق: 7/ 492) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved