• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں وراثت کی تقسیم کی ایک صورت

استفتاء

محترم مفتیانِ کرام! ہمارے والد صاحب کی جائداد 16 ایکڑ 8 غنٹے ہے۔ والد صاحب اس میں سے ایک ایکڑ مدرسہ کو دینا چاہتے ہیں اور باقی جائداد بطور وراثت اپنی زندگی میں ہی ورثاء میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ ورثاء میں اہلیہ، 5 بیٹے، 3 بیٹیاں ہیں جبکہ ہمارے دادا، دادی فوت ہوچکے ہیں۔اب اس تقسیم کا شرعی حکم اور طریقہ کیا ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے والد صاحب کا اپنی زندگی میں جائداد تقسیم کرنا وراثت نہیں بلکہ یہ ان کی طرف سے ورثاء کے لیے ہبہ اور گفٹ ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں آپ کے والد صاحب مدرسہ میں جتنی زمین دینا چاہیں دے دیں۔ پھر جو زمین باقی بچ جائے اس میں سے  اپنے اور بیوی کے لیے ضرورت کے مطابق  مناسب حصہ رکھ کرباقی اولاد میں تقسیم کردیں، اور اولاد میں تقسیم کا افضل طریقہ یہ ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر دیں اور اس کی بھی گنجائش ہے کہ بیٹوں کو دو دو حصے اور بیٹیوں کو ایک ایک حصہ دیں۔

بخاری شریف (حدیث نمبر: 2447) میں ہے:

عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةً فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِكَ مِثْلَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَاتَّقُوا اللهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ قَالَ فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ

ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیرکہتے ہیں (میری والدہ نے میرے والد سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے اپنے مال میں سے ایک غلام ہدیہ کریں ۔ میرے والد نے ان کے مطالبہ کو ایک دو سال ٹالا لیکن پھر مجبور ہو کر) میرے والد نے مجھے (وہ غلام) ہدیہ (کرنے کا فیصلہ ) کر دیا (میری والدہ کو اتنی بات پر تسلی نہ ہوئی اس لئے توثیق کی خاطر میری والدہ) عمرہ بنت رواحہ نے کہا جب تک آپ اس پر رسول اللہ کو گواہ نہ بنا لیں مجھے تسلی نہ ہو گی۔ میرے والد رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا (میری بیوی عمرہ) بنت رواحہ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کے بیٹے کو اپنا غلام ہدیہ کر دوں تو میں نے عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو (غلام) ہدیہ (کرنا طے) کر دیا ہے لیکن اب اے اللہ کے رسول اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں (اس پر) آپ کو گواہ بنا لوں ۔ آپ نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی باقی اولاد کو بھی اسی جیسا ہدیہ (دینے کا فیصلہ ) کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ۔ (اس پر) آپ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان برابری اور انصاف کرو۔ اس پر میرے والد واپس آگئے اور ہدیہ (کا فیصلہ) واپس لے لیا۔

 

فتاویٰ شامیہ (8/583) میں ہے:

وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى

(قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد. رملي

خلاصۃ الفتاویٰ (4/400) میں ہے:

وفي الفتاوى رجل له ابن وبنت اراد أن يهب لهما شيئا فالأفضل أن يجعل للذكر مثل حظ الأنثيين عند محمد، وعند أبي يوسف بينهما سواء هو المختار لورود الآثار.

ولو وهب جميع ماله لإبنه جاز في القضاء وهو أثم نص عن محمد هكذا في العيون ولو اعطى بعض ولده شيئا دون البعض لزيادة رشده لا بأس به وإن كان سواء لا ينبغي أن يفضل

فتاویٰ عالمگیریہ (4/391) میں ہے:

(الباب السادس في الهبة للصغير) ‌ولو ‌وهب ‌رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved