• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ظہر، مغرب، عشاء پڑھتے ہوئے وقت نکلنے کی صورت میں نماز کا حکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ظہر، مغرب یا عشاء کی نماز پڑھتے ہوئے اگر اگلی نماز کا وقت داخل ہو جائے تو پڑھی جانے والی نماز ٹوٹ جائے گی یا اس کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نماز درست ہے۔ اسی شروع کی ہوئی نماز کو مکمل کرے  توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مجمع الانہر (1/216) میں ہے:

لو شرع في الوقتية عند الضيق، ثم خرج الوقت في خلالها لم تفسد، وهو الأصح وإلى أن العبرة لأصل الوقت.

فتاویٰ شامی (2/519) میں ہے:

قوله: بالتحريمة متعلق بيكون والباء للسببية، والباء في قوله: بالوقت بمعنى في، ولو قال: ثم الاداء ابتداء فعل الوجب في وقته كما في البحر لاستغنى عن هذه الجملة ا ه ح. وما ذكره من أنه بالتحريمة يكون أداء عندنا، هو ما جزم به في التحرير، وذكر شارحه أنه المشهور عند الحنفية، ثم نقل عن المحيط أن ما في الوقت أداء والباقي قضاء، وذكر ط عن الشارح في شرحه على الملتقى ثلاثة أقوال، فراجعه.

كتاب الفتاویٰ از مولانا سیف اللہ رحمانی صاحب(2/123) میں ہے:

’’سوال: صبح پانچ بجے عشاء پڑ رہا تھا کہ فجر کی اذان ہونے لگی اور میں نماز پڑھتا رہا کہ میری نماز پوری ہو گئی یا قضاء نماز پڑھنی ہو گی؟

جواب: نمازیں وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے، اگر عشاء کی نماز مکمل ہونے سے پہلے فجر کا وقت شروع ہو گیا اور آپ نے عشاء کی نیت سے ہی نماز شروع کی تھی، تو آپ کی نماز عشاء ادا ہو گئی، اب دوبارہ قضاء کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ قضاء کے حکم میں ہو گی اور ادا نماز کا ثواب نہیں ملے گا؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اگر تحریمہ بھی وقت کے اندر باندھ لیا تو ادا سمجھی جائے گی ، علامہ شامی رحمہ اللہ نے اسی قول کو مشہور قرار دیا ہے۔ دوسرا قول محیط کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ جتنا حصہ وقت کے اندر پڑھا ہے وہ ادا ہے اور جو وقت گذرنے کے بعد پڑھا ہے وہ قضاء ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ یہ قضاء کے حکم میں ہو گی اور اسی کو زیادہ صحیح قول قرار دیا گیا ہے۔ ‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved