• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ظہر کی سنتوں کی ایک رکعت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت نہیں ملائی اور سجدہ بھی نہیں کیا تو کیا حکم ہے؟

استفتاء

ایک آدمی نے ظہر کے وقت کی چار رکعت سنت کی ایک رکعت میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ سورت نہیں ملائی اور سجدہ سہو بھی نہیں کیا  تو اب کیا حکم ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اس شخص  پر سجدہ سہو لازم تھا ، اگر سجدہ سہو نہ کیا تو پڑھی گئی نماز ناقص اور مکروہ ہوئی ہے لہٰذا اس پر واجب ہے کہ ان سنتوں کو دوبارہ پڑھ لے۔

بدائع الصنائع (1/408)میں ہے:

إن المتروك الذي يتعلق به سجود السهو من الفرائض والواجب لا يخلو إما إن كان من الأفعال أو من الأذكار ومن أي القسمين كان واجبا أن يقضي إن أمكن التدارك بالقضاء وإن لم يمكن فإن كان المتروك فرضا تفسد الصلاة وإن كان واجبا لا تفسد ولكن تنتقص وتدخل في حد الكراهة.

حاشیہ طحطاوی (247)میں ہے:

قوله(واعادتها بتركه عمدا )اي مادام الوقت وكذا في السهو ان لم يسجد له وان لم يعدها حتي خرج الوقت تسقط مع النقصان وكرهة التحريم ويكون فاسقا آثما.

شامی(2/628) میں ہے:

كل صلاة اديت مع كراهة التحريم  تعاد اي وجوبا في الوقت ،واما بعده فندبا

شامی (2/631)میں ہے:

فتخلص من هذا كله ان الارجح وجوب الاعادة وقد علمت انها عند البعض خاصة بالوقت وهو ما مشي عليه في التحرير. وعليه فوجوبها في الوقت لا تسمى بعده اعادة وعليه يحمل ما مر عن القنية عن الوبري. واما على القول بانها تكون في الوقت وبعده كما قدمنا عن شرح التحرير وشرح البزدوي فانها تكون واجبة في الوقت وبعده ايضا على القول بوجوبها.

شامی (2/146)میں ہے:

(ولها واجبات) لا تفسد بتركها ‌وتعاد ‌وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها يكون فاسقا

البحر الرائق (1/515) میں ہے:

ولم ‌يقم ‌دليل ‌على ‌تعيينها للفرضية، والمواظبة وحدها كذلك من غير ترك ظاهرا تفيد الوجوب فلا تفسد الصلاة بتركها عامدا أو ساهيا بل يجب عليه سجود السهو جبرا للنقصان الحاصل بتركها سهوا، والإعادة في العمد والسهو إذا لم يسجد لتكون مؤداة على وجه لا نقص فيه فإذا لم يعدها كانت مؤداة أداء مكروها كراهة تحريم، وهذا هو الحكم في كل واجب تركه عامدا أو ساهيا

امداد الفتاویٰ (2/360) میں ہے:

سوال:  ایک شخص پر نمازمیں سجده  سہو لازم ہوا لیکن بوجہ مسائل کی ناواقفیت کے اس کو یہ نہ معلوم ہوا کہ اس پر سجده  سہو لازم ہے اس لئے اس نے سجدئہ سہو نہ کیا اور سلام کے بعد قصداً کوئی فعل منافی بناء کرلیا اس صورت میں اعادۂ صلوٰۃ لازم ہے یا نہیں ۔ نیز ایک شخص کو نماز میں سہو ہوا اور سجدہ  سہو لازم ہوگیا مگرسلام کے وقت یاد نہ رہا کہ مجھ پر سجده  سہو لازم ہے اس لئے اس نے بخیال تمامی صلوٰۃ قصداً کوئی فعل منافی بناء کرلیا اس صورت میں بھی اعادہ لازم ہوگایانہیں ؟والذی ینبغی أنه إن سقط بصنعه کحدث عمداً مثلا یلزم وإلا فلا تأمل سے ظاہر تو لزوم اعادہ ہے؟

الجواب : جی ہاں دونوں صورتوں میں اسی روایت سے لزوم اعادہ سمجھناصحیح ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved