• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(1) دعامیں ہاتھ اٹھانے   کا صحیح طریقہ (2)نماز کے دوران سجدوں میں دعا مانگنے کا کیا حکم ہے؟(3) سلام پھیرنے کے بعددعا کیلئے  سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

1-نماز کے بعد دعا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہےکہ ہاتھ کہاں تک اور کیسے اٹھائے جائیں ؟

2-نماز کے دوران سجدوں میں دعا کرنے کا کیا حکم ہے؟

3-کیاسلام پھیرنے کے بعد سجدے میں جاکر دعا مانگ  سکتے ہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-دعاکے لیے ہاتھ اٹھا تے وقت ہاتھوں میں کچھ فاصلہ رکھنا چاہیے۔ہتھیلیوں کا رخ چہرے کی جانب ہونا چاہیے اور ہاتھوں کو سینے کے برابر اٹھانا چاہیے ۔

2- نماز کے دوران سجدوں میں دعا کرنا جائز ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ نماز کے سجدوں میں دعا کو نفل نماز تک محدود رکھا جائے اور فرض نمازوں کے سجدوں میں معروف تسبیحات کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھا یا مانگا جائے نیز   نماز کے سجدہ میں وہ دعائیں مانگی جا ئیں   جو قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہیں یا وہ بھی مانگ سکتے ہیں جن کا سوال صرف اللہ تعالی سے کیا جا سکتا ہےبندوں سے نہیں کیا جا سکتا مثلا  ” رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین” اور اسی طرح   "اللهم اهدنا و عافنا”

3-نمازوں کے بعد خالی دعا کیلئے الگ سے سجدہ کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس صورت میں عوام کو اس کے سنت ہونے کا شبہ ہو سکتا ہے حالانکہ یہ سنت نہیں۔البتہ تنہائی میں خالی دعا کے لئے سجدہ کرنا صرف جائز یعنی مباح ہے سنت یا مستحب نہیں، لہذا اسے سنت یا مستحب سمجھنا یا اس کی عادت ڈالنا بدعت ہے۔

رد المحتار علی الدر المختار (2/264)ميں ہے:

”  ( فيرفعهما كالدعاء ) والرفع فيه وفي الاستسقاء مستحب ( فيبسط يديه ) حذاء صدره ( نحو السماء ) لأنها قبلة الدعاء ويكون بينهما فرجة”

رد المحتار  جلد نمبر 2صفحہ نمبر 213 پر ہے:

"و كذا لا يأتي في ركوعه و سجوده بغير التسبيح على المذهب، و ما ورد محمول على النفل.

 قال ابن عابدين رحمه الله قوله: (محمول على النفل) أي تجهداً أو غيره.خزائن. و كتب في هامشه: فيه رد على الزيلعي حيث خصه بالتهجد. ثم الحمل المذكور صرح به المشائخ  الوارد في الركوع و السجود، و صرح به في الحلية في الوارد في القومة و الجلسة و قال: على أنه إن ثبت في المكتوبة فليكن في حالة الإنفراد، أو الجماعة و المأمومون محصورون لا يتثقلون بذلك كما نص عليه الشافعية، و لا

ضرر في التزامه و إن لم يصرح به مشائخنا، فإن القواعد الشرعية لا تنبو عنه …. إلخ.

رد المحتار علی الدر المختار (1/ 521)پر ہے:

"(ودعا) بالعربية، وحرم بغيرها …… (بالأدعية المذكورة في القرآن والسنة. لا بما يشبه كلام الناس)”

امداد الفتاوی جلد نمبر 3صفحہ نمبر 234پر ہے:

” الجواب : نفل نماز کے سجدہ میں دعادرست ہے مگر عربی زبان میں ہوا ور آخرت کی ہو جیسے رحمت مغفرۃ اورایک معنی بعض نے یہ کہے ہیں کہ تسبیح کو دعا اس لئے فرمایا کہ کریم کی مدح کرنا گویا سوال کی غرض سے ہوتا ہے۔ اور جدا گانہ سجدہ کہیں منقول نہیں دیکھا گیا لیکن ظاہراََ کچھ حرج بھی نہیں کیونکہ صورت تذلل کی ہے مگرعادت نہ کرے اور سنت نہ سمجھے”

عمدۃ الفقہ جلد نمبر  2صفحہ نمبر  110 پر ہے:

"اور ایسا ہی رکوع و سجدہ میں تسبیح کے سوا اور کچھ نہ کہے، اور جو ذکر یا دعائیں ان موقعوں کے لیے حدیثوں میں آئیں ہیں وہ نوافل پر محمول ہیں”

کفایت المفتی جلد نمبر 3صفحہ نمبر  414 پرہے:

"نماز کے بعد سجدہ دعائیہ کو فقہائے کرام نے مکروہ فرمایا ہے ۔۔۔یعنی جو سجدہ کہ  نماز کے بعد کیا جاتا ہے مکروہ ہے کیونکہ عوام  اس کو واجب یا سنت اعتقاد کرلیتے ہیں اور جو مباح کہ اعتقاد وجوب یا سنیت  پیدا کرے مکروہ ہوجاتا ہے اسی عبارت سے معلوم ہوا کہ یہ سجدہ فی حد ذاتہا مباح ہے کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس مباح کو واجب یا سنت سمجھ لیا جاتا ہے یا لوگ دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں اور جو کوئی نہ خود ایسا سمجھتا ہو اور نہ لوگوں  کے سامنے کرے بلکہ تنہائی میں کرے تو مباح ہے ۔ آنحضرت ﷺ یا صحابہ کرام ؓ یا ائمہ عظام کا یہ طریقہ نہ تھا”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved