- فتوی نمبر: 15-36
- تاریخ: 14 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اگرکوئی شخص باقاعدہ تاجر ہے مگر فی الحال اس کے پاس رقم نہیں ہے اس نے گاہک سے اس چیز کی مکمل قیمت وصول کی اور اسی رقم سے مال خریدا پھر نفع کیساتھ فروخت کیا یعنی گاہک سے مثلا دس ہزار کا سودا کیا تھا اور تاجر کو وہ چیز نو ہزار کی ملی توشرعا ایسا کرنا جائز ہے اور تاجر کےلیے نفع لینا حلال ہے؟
وضاحت:چیز بھی متعین تھی(نیا جنریٹر)اوروقت بھی متعین تھا ایک ہفتہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ مبیع بھی منضبط بالاوصاف ہے اور اس کی سپردگی کاوقت بھی متعین ہے اور کل قیمت عقد کے وقت ادا کردی گئی ہے اس لیے یہ صورت بطور بیع سلم کے درست ہے اگرچہ حنفیہ کے نزدیک سلم کی کم سے کم مدت ایک مہینہ ہے مگر شوافع کے ہاں توسع ہے اور ضرورت کے پیش نظر ان کے قول کو لیا جاسکتا ہے ۔
امداد الفتاوی (3/20)میں ہے:
سوال: یہاں یہ دستور ہے کہ بکر قصاب کو کچھ روپے پیشگی دیدئیے اور گوشت کے دام فی سیر ٹھرالئے جوبازار کے نرخ سے کچھ کم ہوتا ہے مثلا بازار میں 4 سیر بکتا ہے لیکن 3 سیر ٹھرا لیا اور گوشت آتا رہا اس کی یادداشت رکھ لی اور ختم ماہ پر حساب کردیا اورکمی بیشی پوری کرکے بیباقی کردی اور آیندہ ماہ کے لیے پھر نقد روپیہ دیدیا اورنیا معاہدہ بھاؤ کاکرلیا کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بازار کابھاؤ 3. اور3 اور2. ہو جاتا ہے مگر یہ مقرر شدہ نرخ بدلانہیں جاتا اس کااگلے مہینے میں لحاظ کرکے بھاؤمقرر کرتے ہیں قصاب کو یہ نفع ہوتا ہے کہ اس روپیہ سے بکریاں خریدتا اور گوشت بیچتا ہے اس کو کسی دوسرے سے روپیہ قرض لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔اب عرض یہ ہے کہ کیا یہ جائز ہے؟
جواب:یہ معاملہ حنفیہ کے نزدیک ناجائز ہے اس لیے کہ جو کچھ پیشگی دیا گیا ہے وہ قرض ہے اور یہ رعایت قرض کے سبب کی ہے اور بیع سلم کہہ نہیں سکتے اس لیے کہ اس میں کم سے کم مہلت ایک ماہ کی ہونی چاہیے اور امام شافعی ؒ کے نزدیک چونکہ اجل شرط نہیں اس لیے سلم میں داخل ہوسکتا ہے چونکہ اس میں
ابتلاء عام ہے لہذا امام شافعی ؒ کے قول پر عمل کی گنجائش ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved