• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کتاب اعمال قرآنی

استفتاء

1۔قرآن مجید پاک کلام ہے اور اسلام طہارت کا سبق دیتا ہے۔ قرآن پاک کی آیات کو گندے ورق یا کنگھی یا گندی کسی بھی چیز پرلکھنا غیر مناسب کام ہے۔ ( اعمال قرآنی، 92 )

2۔ قرآن مجید کی سورت کو لکھ کر اور پھر اس کو پانی میں ڈال کر  اور اس پانی سے غسل کرنا مناسب نہیں ہے، بے ادبی کا پہلو ہے۔ ( اعمال قرآنی، 94 )

3۔قرآن مجید کی آیا اور  سورتوں کو لکھ کر   ران پر، بازو پر،کمر پر، گردن پر  باندھ لیں۔ جب کمر پر باندھیں  گے تو جب سیدھا لیٹیں گے تو وہ سورت نیچے ہوگی اور کیا اس میں بے ادبی  کا پہلو نہیں ہے؟

4۔ 786 لکھنا کیا درست ہے؟

5۔ قرآن مجید کی آیات و سورت کو جب لکھ کر باندھا جاتا ہے تو کیا وہ پڑھنے سے بے نیاز ہوجا تاہے۔ تو پھر پورا قرآن مجید چھوٹے سائز والا ہر وقت اپنے پاس ہی رکھنا بہتر ہے۔ اور پھر چھوٹےسائز کے قرآن مجید کو باندھ لیا جاوے کیا یوں آیات و سورت کا باندھنا کمر وغیرہ پر شریعت اسلامیہ کی رو سے درست ہے؟

6۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا وہ آخری کلام ہے جو حضرت محمد ﷺ جو آخری نبی ہیں پر نازل ہوا۔ اور یہ قرآن مجید تمام انسانوں کے لیے راہ ہدایت شفا و رحمت ہے۔

"قل يأيها الناس إني رسول الله إليكم جميعاً”. ( الحجر )

یہ کلام قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔

ص: 89، سورہ نحل کو لکھ کر اگر کسی باغ میں رکھ دیں تو تمام درختوں  کا پھل جاتا ہے۔ اگر کسی مجمع میں رکھ دیں تو سب پراگندہ ہو جاویں۔ ظالم کے علاوہ کسی دوسرے کےلیے جائز نہیں۔ ( اعمال قرآنی)

اگر کوئی شخص سورہ نحل  کو لکھ کر مجمع میں رکھ دے تو یہ وہاں کے مجمع کو پراگندہ نہیں کرے گا اگر وہ با ایمان ہوں گے۔ کیوں کہ  قرآن مجید رحمت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کسی  پر ظلم نہیں کرتا ہے۔

اگر قرآن مجید کی آیات و سور کی  کوئی شخص نعوذ باللہ غیر شرعی کاموں کے لیے استعمال کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے تو گناہ گار ہوتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید غلط کاموں میں  راہنمائی فراہم نہیں کرتا ہے۔ اور اس شخص کو توبہ کرنی چاہیے۔ اور قرآن مجید غیر شرعی کاموں میں نہ راہنمائی فراہم کرتا ہے اور نہ ہی غیر شرعی کاموں میں مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا کلام  سچ پر مبنی ہے۔ اور سچ غالب آکر رہتا ہے۔

قرآن مجید کو امت محمدیہ نے سمجھ کر اور غور و  فکر کے ساتھ پڑھنا کم کردیا ہے۔ اور اس لیے وہ آج مغلوب ہورہے ہیں۔ کلام پاک کی آیات و سور کی تلاوت کرنا ان پر غور وفکر کرنا ان  کے احکامات کو جاننا مسلمانوں کا فريضہ ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ کلام پاک کی ان آیات پر عمل  کے مستحق نہیں  رہتے جو آیات پر غور و فکر کریں اور احکامات کو سیکھیں تو وہ غالب رہیں گے۔ اور دنیا کی کوئی بھی طاقت اللہ کے فضل و کرم سے ان کو نقصان نہیں دے سکے گی۔

” ادخلوا في السلم كآفةً”  اسلام میں پورا کا پورا داخل ہونا ضروری ہے تب ہی  انسانیت کی بھلائی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کتاب” اعمال قرانی” موصول ہوئی۔ کرم فرمائی پر مشکور ہوں۔ طالبہ کے جو اشکالات ہیں ان کے حل کے لیے چند اصولی باتیں پیش نظر رکھنا ضروری ہیں:

1۔ قرآن پاک میں خود قرآن کو لوگوں کے لیے شفا کہا گیا ہے۔ پھر یہ گمراہی کے ساتھ مفید نہیں ہے تاکہ یہ کہا جاسکے کہ شفا سے مراد ہدایت ہے۔ اس لیے قرآن پاک جہاں لوگوں کے لیے ہدایت ہے وہیں اس میں لوگوں کے لیے امراض جسمانی کا علاج بھی ہے۔ قرآن پاک  کا کتاب ہدایت ہونا ایک  علیحدہ چیز ہے اور اس کا شفا ہونا  علیحدہ  چیز ہے اور دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔ تعویذ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ س کو پڑھانہ  جائے۔

2۔ حدیث میں ہے:

.i حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چھوٹے بچوں کے گلے میں یہ تعویز لکھ کر لٹکا دیتے تھے” أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه و شر عباده و من همزات الشياطين و أن يحضرون”.

.ii ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے سورہ فاتحہ پڑھ پڑھ کر ایک سردار کا سانپ کے کاٹے  کا علاج کیا۔

3۔ ادب و احترام کے اعتبار سے کھلے قران پاک کا اور کپڑے میں لپٹے قرآن پاک کا حکم میں  فرق ہے۔کھلے کو بغیر وضو کے  ہاتھ نہیں لگا سکتے جبکہ کپڑے میں لپٹے ہوئے  کو لگا سکتے ہیں۔

جو اوپر ذکر ہوا کہ بچوں کےگلے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دعا جس میں اللہ کا نام لکھا ہوتا تھا لٹکاتے تھے اور ظاہر ہے کہ وہ ہر وقت ہی لٹکا رہتا تھا بیت الخلا میں جاتے ہوئے بھی اور سوئے ہوئے بھی اور سوتے ہوئے کمر کے نیچے ھی آتا ہوگا۔ لہذا کپڑے میں یا چمڑے میں بند کیے ہوئے تعویذ کے احکام جدا ہیں۔ اسی وجہ سے کپڑے میں لپٹا ہو ا تعویذ ران پر بھی باندھ سکتےہیں، البتہ اس پر خون اور گندا پانی نہ لگے۔

4۔ جس پانی پر  دم کیا ہو یا تعویذ بھگویا گیا ہو وہ پانی متاثر ہوتا ہے خود قرآن پاک نہیں بن جاتا اس لیے اس کے ادب کے احکام علیحدہ ہوں گے۔ اس میں اتنا کافی ہے کہ کسی پاک جگہ میں بیٹھ کر  پاک جسم پر وہ  پانی بہا لیں۔ گٹر میں نہ جائے۔

5۔ علاج کی دو صورتیں ہیں ایک  حلال چیز سے علاج ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جائز ہے۔ دوسرے حرام چیز سے علاج۔ یہ اس وقت جائز ہو جاتا ہے جب متبادل جائز علاج نہ ہو یا اس سے فائدہ نہ ہو رہا ہو۔

6۔ تجربہ و بصیرت سے کوئی علاج سمجھ میں آجاتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اس پر بعینہ اسی طرح عمل کیا جائے۔ اچھے عامل  اس کو کچھ اصلاح کر کے استعمال کراتے ہیں تاکہ ناجائز طریقہ نہ رہے۔

7۔ لوگوں کی بڑی اکثریت تعویذوں پر عمل ہر دور میں کرتی  آئی ہے۔ کیا یہ اچھی بات نہیں کہ شرک   و کفر کے تعویذوں کے بجائے اللہ تعالیٰ کے نام اورا سکے کلام پر مشتمل  تعویذ دئیے جائیں جن سے ان کے عقیدے اورا یمان کی حفاظت رہے۔

8۔ ظالم لوگ جو کسی ظلم کی خاطر جمع ہوئے ہوں اگر قرآن پاک کی کسی سورت کی برکت سےان کو منتشر کیا جاسکے تو کیا حرج ہے۔

9۔ اعمال قرآنی اور دیگر اعمال مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اور دیگر بڑے بڑے حضرات نے ذکر کیے ہیں۔ یہ لوگ نہ کافر و مشرک تھے، نہ بدعتی تھے اور نہ ہی  قرآن پاک کی بے ادبی کرنے والے تھے۔ ہمیں ان کے بارے میں خوش فہمی رکھنی چاہیے نہ کہ بدگمانی۔ کیا وہ دین کو ہم سے زیادہ نہ سمجھتے تھے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved