- فتوی نمبر: 2-317
- تاریخ: 10 جون 2009
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع مبین اس مسئلے کے بارے میں کہ 10 اکتوبر 2005ء کو ضلع مانسہرہ وآزاد کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا۔ لاکھوں مکانات تباہ ہوئے ،بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوا۔حکومت پاکستان نے امداد کی اپیل کی مسلم وغیر مسلم ممالک سے امداد ی سامان اوررقومات آنی شروع ہوئیں ۔ حکومت وقت نے تعمیر نو کے لیے ایک لاکھ 75ہزار فی مکان دینے کا اعلان کیا۔ امداد کی ٹیم نے تباہ شدہ مکان کے معائنہ کے بعد 25ہزار روپے کی پہلی اور 75ہزار کی دوسری قسط زید کے نام جاری کردی ، اس دوران زید نےاپنے تباہ شدہ مکان کی جگہ مع ملبہ کے بکر کے ہاتھ فروخت کردی ۔ بوقت فروخت بائع ومشتری کے ما بین یہ بات طے ہوئی کہ تعمیر مکان کے لیےجتنی بھی رقم حکومت کی طرف سے جاری ہوگی وہ زید یعنی بائع لے سکتاہے بکر کواس پر کوئی اعتراض یا دعویٰ کرنےکا حق نہیں ہوگا۔
بقیہ 75ہزار روپے کی تیسری قسط کے اجرا کے لیے گورنمنٹ نے یہ شرط لگادی کہ ہر متاثر تعمیری کام دکھائے، زید کے پاس اپنی ذاتی زمیں گاؤں میں نہیں تھی جس پر کمرے بناتا تھا تعمیری کام کراتا۔ زید کی مجبوری کو دیکھ کراس کے ایک رشتہ دار نے اپنی زمین پر کمرے بنانےکی اجازت دےدی اورخوب تعاون کیا۔ معائنہ ٹیم نے 75ہزار کی بقیہ تیسری قسط بھی زید کے نام جاری کردی ۔ تعمیر شدہ کمرے اس کے رشتہ دار کے قبضے اوراختیار میں رہے۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس طریقے سے تیسرے قسط کا حصول زید کے لیے جائز ہے یا کہ نہیں۔ اگر ناجائز ہے تووہ اس 75 ہزار روپے کا کیا کرے؟
وضاحت: زید نے تعمیر نواس لیے نہیں کی تھی کیونکہ زید کو تعمیر نو کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ زید کے پاس متبادل مکان کراچی میں موجود ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں زید نے آباد کاری کی شرط پوری نہیں کی تھی ۔ اس لیے زید امداد کا مستحق نہیں تھا۔ اب جبکہ زید نے 75000روپے رقم وصول کرلی ہے ۔ تو وہ اس رقم کو فقراء پر صدقہ کردے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved