• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والی کی طرف سے جمعہ کی نماز کی اجازت

استفتاء

ہمارا گاؤں انذر میرہ جو کہ ضلع بونیر سوات میں واقع ہے۔اسکی آبادی کم ازکم  150گھروں پر مشتمل ہے ۔اور تقریباً 10دکانیں ہیں  جسمیں اشیائے خورد نوش کے سامان کے علاوہ کسی اور چیز کی سہولت میسر نہیں۔

آیا ایسے گاؤں میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بارے میں کیا حکم ہے۔

1۔جس کی آبادی 150 گھروں سے زیادہ ہو اور مضافات سے بھی لوگ  جمع ہوتے ہوں۔

2۔اس گاؤں میں  نمازجمعہ تقریباً 150 سال سے ہورہا ہو۔

3۔اس گاؤں میں جمعہ کی اجازت والی سوات نے دی تھی ۔جواس وقت ریاست کا بادشاہ تھا۔

4۔اس وقت مذکورہ گاؤں میں گزشتہ تین سال سے علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ جمعہ کے ہونے یا نہ ہونے میں۔

5۔نماز جمعہ کی بند ہونے پر گاؤں میں لڑائی جگھڑے کا بھی خطرہ ہے ۔

گاؤں کی آبادی تقریباً 1500 تک ہے۔

لہذا ایسے گاؤں میں نماز جمعہ  جاری رکھیں یا بند کردیا جائے؟ ان میں بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ نماز جمعہ بندکردیا جائے اور جو نمازیں پڑھی گئی ہے  دوبارہ لوٹادیں۔وضاحت   فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب مذکورہ گاؤں میں پہلے سے جمعہ جاری ہے اور اس کی جازت والئ سوات کی طرف سے ملی ہوئی ہے  تو جمعہ کو جاری رکھیں۔

وإذن الحاكم ببناء الجامع فی الرستاق إذن بالجمعة إتفاقاً علی ماقاله السرخسي، وإذا اتصل به حكم صار مجمعاًعليه…قال الشامي…والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة  النفل بالجماعة، ألا تری أن فی الجواهر لو صلوا فی القری لزمهم أداء الظهر وهذاإذا لم يتصل به حكم  فإن في فتاوی الديناري إذا بنی مسجدا فی الرستاق بأمر فهو أمر بالجمعة إتفاقاً علی ماقاله السرخسي….قوله (وإذا اتصل به حكم) قد علمت  أن  مجرد أمره حكم.(شامی: ص 8 ج3)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved