استفتاء
1۔اقامت جمعہ کے بارے میں ہمارے علاقے کی نوعیت کچھ یوں ہیں ۔پوراعلاقہ پایا جواکی جس کا رقبہ تقریباً 4 کلومیٹر طولاً جبکہ ڈھائی کلومیٹر عرضاً ہے۔مجموعی آبادی 5ہزار نفوس پر مشتمل ہوگی ۔علاقے میں مختلف محلے یا گاؤں جن کے نام الگ الگ ہے 40، 50 گھروں پر مشتمل ہونگی۔علاقے میں ایک مارکیٹ جگہ جگہ کئی دکانیں۔دو چھوٹے ہسپتال کئی ڈاکٹر ایک ہائی سکول کئی پرائمر ی اور مڈل سکول بھی ہے ،ایک خاصہ دار چوکی ہے۔دکانوں میں روز مرہ ضروریات کا سامان کپڑے تک مل جاتے ہیں ۔علاقے میں مدرسہ کی مسجد سب سے بڑی ہے جہاں سارے لوگ نہیں سما سکتے۔ مندرجہ بالا تفصیل کی بنا پر ہماری راہنمائی فرمائیں:
1۔ہمارے علاقے میں نماز جمعہ واجب ہے یا صرف جائز ہے؟
2۔کئی مساجد جس میں ایک مدرسہ بھی شامل ہے ان میں نماز جمعہ پڑھاجاتاہے ۔سب میں جائزہے یا صرف مدرسہ کی مسجد میں ؟اس لئے قبائلی روایات کے مطابق ہر گاؤں کے مساجد میں عام طورپر تو کوئی منع نہیں کرتے مگر اگر کسی کے ساتھ دشمنی ہوجاتی ہے تو پھر فریق مخالف کے مسجد میں یہ لوگ نہیں جاتے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ایسی مساجد میں اذن عام کے حکم میں ہیں یا نہیں؟ ان میں جمعہ قائم ہوسکتاہے ؟
3۔جولوگ نماز جمعہ نہیں پڑھتے” انکی نماز ظہر اداء ہوگی یا تارک جمعہ کے وعید میں داخل ہونگے؟
وضاحت: ہمارے پورے علاقے میں تقریباً 35سال سےجبکہ ہماری مدرسہ کی مسجد میں 15 سال سے نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے۔جس کا بند کرنا انتہائی فتنہ وفساد کا سبب ہے۔2۔ہمارے پورے علاقے میں ایک مارکیٹ مختلف اشیاء ضروریات کی 12 دکانوں پر مشتمل ہے جن میں اتصال ہے۔ جبکہ باقی پچیس غیر متصل دکانیں ہیں۔3۔ہماراپورا علاقہ تقریباً25 گاؤں پر مشتمل ہے۔ جن میں ہر گاؤں دوسرے سے آدھا کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔لیکن مجموعی آبادی پر (پایاجواکی )کا اطلاق ہوتاہے۔
نیز خاص طور پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے علاقے میں نماز جمعہ صرف جائز ہے۔یا واجب بھی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں پایاجواکی علاقہ جس کا رقبہ 4کلومیٹر لمبا اور ڈھائی کلومیٹر چوڑا ہے۔اورجس کی آبادی پانچ ہزار افراد پر مشتمل ہے اور جس میں مختلف محلے اور متصل دکانیں بھی ہیں اور دیگر ضروریات کی چیزیں بھی موجود ہیں۔ شریعت کی رو سے ایسا پورا علاقہ ایک ہی شمارہوتاہے اور یہ علاقہ بڑے قصبہ اور شہر کے حکم میں ہے ، لہذا اس میں نماز جمعہ واجب اور ہر مسجد میں نماز جمعہ پڑھنا جائز ہے۔اور اگر باہمی دشمنی کی وجہ سے کسی کو دوسری مسجد میں نہ آنے دیاجائے تو یہ اذن عام کے منافی نہیں۔
فی التنوير: ويشترط لصحتها المصر وهو مالايسع أكبر مساجده المكلفين بها.وفی الشاميه :قال أبو شجاع: هذا أحسن ماقيل فيه، وفی الولوالجيه: وهو صحيح (بحر) وعليه مشیٰ فی الوقايه ومتن المختار وشرحه وأيده صدر الشريعة /شامی :ص137 ج2
نيز اعلاء السنن ميں ہے:
كانت محلات المدينة إذ ذاك منفصلة بعضها عن بعض ولم تكن متصلة فكان ماذا؟ فإن اتصال المحلات بعضها ببعض لا يشترط للمصرية/ اعلاء السنن:13 ج8
فتاویٰ شامی میں ہے:
قال فی الدر(وتؤدی فی مصر واحد بمواضع كثيرة) مطلقاًعلی المذهب وعليه الفتوی،قال الشامي: وبما ذكرنا إندفع مافی البدائع من أن ظاهرالرواية جواز ها في موضعين لا في أكثر وعليه الإعتماد اه فإن المذهب الجواز مطلقاً.
والسابع(الإذن العام)من الامام وهو يحصل بفتح ابواب الجامع للواردين (كافي)فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة لأن الإذن العام مفرد الأهله وغلقه لمنع العدو لا لمصلي / الدر 2/ 152
© Copyright 2024, All Rights Reserved