- فتوی نمبر: 17-158
- تاریخ: 17 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
اکثر سننے کو ملتا ہے کہ خود کشی حرام ہے ۔قران و حدیث کا اس بارے میں کیا حوالہ ہے؟
.2جس طرح سود ،شراب ،زنا وغیرہ حرام ہیں تو کیا خود کشی کی سزا بھی انکی طرح ہوگی یا وہ شخص مکمل جہنمی ہوگا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
.1 قران و حدیث سے خود کشی کے حرام ہونے کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں۔
التفسير الکبير10/ 57 میں ہے:
(ولاتقتلوا انفسكم) يدل على النهى عن قتل غيره و عن قتل نفسه بالباطل .
ترجمہ:(اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو )یہ آیت کسی دوسرے کو اور اپنے آپکو ناحق قتل کرنے سے ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔
مشکوۃ مع شرحہ المرقاۃ 15/7 میں ہے:
وعن ابى هريرة قال :قال رسول اللهﷺ:”الذي يخنق نفسه يخنقها في النار والذي يطعنها يطعنها في النار”.
ترجمہ:حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:آپ ﷺ نے فرمایا :”جس نے اپنے آپ کو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا وہ دوزخ میں اپنا گلا گھونٹے گااور جس نے اپنے آپ کو نیزہ مارا وہ آگ میں اپنے آپ کو نیزہ مارے گا۔
.2احادیث میں خودکشی کی سزا اگرچہ خلود فی النار (ہمیشہ جہنم میں رہنا) آئی ہے لیکن خلود فی النار سے مراد حقیقی خلود نہیں بلکہ طویل مدت تک جہنم میں رہنا مراد ہےچنانچہ اپنی سزا پوری ہونے کے بعد وہ جنت میں چلا جائے گا۔
مشکوۃ مع شرحہ المرقاۃ13/7 میں ہے:
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله ﷺ : ” من تردى من جبل فقتل نفسه فهو في نار جهنم يتردى فيها خالدا مخلدا فيها أبدا
ترجمہ:حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جس شخص نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرایااور اپنے آپ کو اس سے ہلاک کر دیا وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ گرتا رہے گاوہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔
قال فى شرحه : (مخلدا فيها أبدا) تأكيد بعد تأكيد أو محمول على المستحل أو على بيان أن فاعله مستحق لهذا العذاب أو المراد بالخلود طول المدة وتأكيده بالمخلد والتأبيد يكون للتشديد والتهديد .
ترجمہ:(وہ ہمیشہ اس میں رہے گا)سے مراد تاکید در تاکید ہے یا اس سے مراد وہ شخص ہے جو خود کشی کو حلال سمجھے یا اس بات کو بیان کرنا مقصود ہے کہ خود کشی کرنے والا اس عذاب کا مستحق ہے یا ہمیشہ رہنے سے مراد لمبی مدت ہے اور ہمیشہ رہنے کی تاکید شدت اور ڈانٹ کے لیے ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved